رمضان المبارک میں بندہ نوافل (اشراق، چاشت، اوابین وغیرہ)کا اہتمام کرے یا قضا نمازوں کو ادا کرے؟
زمانۂ طالب علمی میں ایک اصول سنا تھا کہ دفع مضرت یہ مقدم ہے جلب منفعت پر، اس قاعدے کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ قضاءِ عمری ادا کرنا بہتر ہے، اگر اگر واقعتاً قضاءِ عمری بہتر ہے تو ثواب کی کیا صورت ہوگی؟ یعنی رمضان المبارک میں نوافل فرض کے برابر ہیں اور فرض ستر فرائض کے برابر، تو کیا قضاءِ عمری پر بھی کچھ اضافی ثواب ملے گا یا نہیں؟
نوافل سے زیادہ قضا نمازوں کا اہتمام ضروری ہے، اور رمضان میں ادا کی جانے والی قضا نماز کے ثواب اور درجات کے بڑھ جانے کی اللہ کی ذات سے امید کی جاسکتی ہے، لیکن ایک قضا نماز ایک ہی کی طرف سے کافی ہوگی، یعنی ایسا نہیں کہ ایک قضا نماز ستر نمازوں کی طرف سے کافی ہوجائے۔ باقی رمضان میں ادائیگی کی امید پر قضا نمازوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے، اول تو نماز قضا ہی نہ کی جائے؛ کیوں کہ اپنی سستی وکوتاہی سے نماز قضا کرنا گناہ ہے، اور اگر قضا ہوجائے تو فوراً اس کی ادائیگی کا انتظام ہو اور ساتھ میں توبہ واستغفار بھی کیا جائے۔ اور سننِ مؤکدہ کا اہتمام بہرصورت ضروری ہے، قضا نمازوں کی ادائیگی کی وجہ سے سنتِ مؤکدہ کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200240
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن