بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں میاں بیوی کا ہم بستری کرلینے سے قضا اور کفارے کا حکم


سوال

روزے کی حالت میں شوہر نے اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کر لی ایسے کہ شوہر نے بیوی کو بھی مکمل اپنے بس میں کر لیا تھا اور جذبات اس پر حاوی ہو گئے تو اس صورت میں دونوں کے لیے کیا حکم ہے؟  اگرچہ کہ روزہ ٹوٹ گیا تو  کیا کھا پی سکتے ہیں اور روزہ ٹوٹنے کی حالت میں قضا تو ادا کرلیں، لیکن اگر کفارہ اداکرنے پہ قادر نہ ہو تو  کیا حکم ہے؟  مطلب ساٹھ  مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کے لیے مشکل ہے اور ساٹھ روزے رکھنا بھی اس کے لیے مشکل ہو تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر شوہر نے بیوی کے منع کرنے کے باوجود رمضان المبارک میں زبردستی ہم بستری کرلی، اور شوہر کا بھی روزہ تھا تو شوہر پر روزہ کی قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں، شوہر گناہ گار بھی ہوگا، اسے چاہیے کہ صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے۔ البتہ بیوی پر صرف روزہ کی قضا لازم ہوگی۔  اور اگر بیوی شوہر کے کہنے پر رضامند ہوگئی تھی (گو ابتدا میں منع کیا ہو) تو اس پر  بھی کفارہ لازم ہوگا۔

بہرصورت دونوں کو  باقی دن روزہ داروں کی مشابہت میں کھانے پینے سے رکنا لازم ہوگا۔

اور روزے کے کفارے میں ساٹھ  روزے  مسلسل رکھنے ہوں گے، ایک روزہ بھی درمیان میں رہ گیا تو از سرِ نو دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے،  البتہ عورت کے ایام درمیان میں آجائیں تو اس سے تسلسل نہیں ٹوٹے گا۔ اگر بیماری وغیرہ کی وجہ سے مسلسل دو ماہ روزے رکھنے کی واقعۃً طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہوگا، نیز ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دینا بھی کافی ہوگا، اسی طرح ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن تک دو وقت کھانا دینا یا  ایک مسکین کو ساٹھ دن تک روزانہ صدقہ فطر کی مقدار رقم دینے سے بھی کفارہ ادا ہوجائے گا۔

لیکن بلا عذر،  صرف ہمت نہ کرنے کی وجہ سے ساٹھ مسلسل روزے رکھنے کے بجائے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اور اگر ساٹھ مسکینوں کو  کھانا کھلانے کا بھی انتظام نہ ہو تو مرنے سے پہلے وصیت کرنا لازم ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 205):
"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة. وكذا إذا كانت مكرهة في الابتداء ثم طاوعته بعد ذلك كذا في فتاوى قاضي خان".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 409):

''(وإن جامع) المكلف آدمياً مشتهى (في رمضان أداءً) لما مر (أو جامع) أو توارت الحشفة (في أحد السبيلين) أنزل أو لا ۔۔۔ قضى) في الصور كلها (وكفر)". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109203114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں