بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کے مہینہ میں کاروبار کی وجہ سے روزہ چھوڑنا


سوال

اگر کوئی شخص رمضان کے مہینہ  میں کاروبار کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا اور وہ کاروبار کرتا ہے، تو ایسے شخص کے کاروبار کا کیا حکم ہے؟ اس سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے، اس آمدنی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے آیا کہ وہ حلال ہے یا کہ حرام ہے ؟

جواب

رمضان المبارک کے روزے پورے سال میں صرف ایک ہی ماہ فرض کیے گیے ہیں،ان روزوں کی اللہ کے ہاں بڑی قدروقیمت ہے اورروزے داروں کے لیے عظیم ثواب واجرکاوعدہ کیاگیاہے،محض  کاروبار   کی وجہ سے رمضان المبارک کے فرض روزوں کوچھوڑنا ناجائز ہے اور یہ اس ماہ مبارک کی بڑی ناقدری ہے، بلکہ  مناسب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ایسے سخت محنت کے کام نہ کیے جائیں  جن کی وجہ سے روزوں کی قضا کی نوبت آئے، اپنے کام میں تخفیف کردے،روزے رکھے  ،اگر  روزہ نہ رکھا تو  سخت گناہ گار ہوگا،  توبہ واستغفار لازم ہوگا، اور بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہوگی۔باقی روزے چھوڑنے کی وجہ سے اس شخص کی  آمدنی حرام نہیں ہوگی ۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من أفطر يوماً من رمضان من غير رخصة و لا مرض لم يقض عنه صوم الدهر كلّه و إن صامه".

(مشکاة المصابیح،١/ ١٧٧، ط: قديمی)

ترجمہ: جس آدمی نے عذر اور بیماری کے بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑھ دیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سے ایک روزے کی تلافی نہیں ہوگی، اگر چہ قضا کے طور پر عمر بھر روزے بھی رکھ لے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"لايجوز أن يعمل عملاً يصل به إلى الضعف، فيخبز نصف النهار ويستريح الباقي، فإن قال: لا يكفيني، كذب بأقصر أيام الشتاء، فإن أجهد الحر نفسه بالعمل حتى مرض فأفطر ففي كفارته قولان، قنية.

''(قوله: لا يجوز إلخ) عزاه في البحر إلى القنية. وقال في التتارخانية: وفي الفتاوى سئل علي بن أحمد عن المحترف إذا كان يعلم أنه لو اشتغل بحرفته يلحقه مرض يبيح الفطر، وهو محتاج للنفقة هل يباح له الأكل قبل أن يمرض؟ فمنع من ذلك أشد المنع، وهكذا حكاه عن أستاذه الوبري، وفيها: سألت أبا حامد عن خباز يضعف في آخر النهار هل له أن يعمل هذا العمل؟ قال: لا ولكن يخبز نصف النهار ويستريح في الباقي، فإن قال: لا يكفيه، كذب بأيام الشتاء؛ فإنها أقصر فما يفعله اليوم اهـ ملخصاً."

  (2/ 420،  کتاب الصوم، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں