بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کرنا


سوال

رمضان المبارک کے پہلا عشرہ کا اعتکاف سنت ہے یا نفل مکمل جواب عنایت فرمائیں ؟

جواب

رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت ہے، اس کے علاوہ ایام میں اعتکاف کرنا مستحب ہے۔

نیز  نبی کریم ﷺ سے پورے رمضان کا اعتکاف بھی ثابت ہے؛  لہذا آپ ﷺ کے عمل کی اتباع میں پورے رمضان کا اعتکاف کرنا اور بھی زیادہ باعثِ اجر و ثواب ہوگا،  تاہم یہ آپ ﷺ کا مستقل معمول نہیں تھا، بلکہ جس سال رسول اللہ ﷺ نے پورے مہینے کا اعتکاف فرمایا تھا، آپ ﷺ نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی تھی کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شبِ قدر کی تلاش میں کیا، پھر دوسرے عشرے کا بھی کیا، لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ رات آخری عشرے میں ہے، لہٰذا جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کریں۔

لہذا رمضان المبارک کے پہلا عشرہ کا  اعتکاف سنت نہیں بلکہ مستحب ہے۔

مشکاۃالمصابیح میں ہے:

"وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتكف العشر الأول من رمضان ثم اعتكف العشر الأوسط في قبة تركية ثم أطلع رأسه، فقال: «إني اعتكفت العشر الأول ألتمس هذه الليلة ثم اعتكفت العشر الأوسط، ثم أتيت فقيل لي: إنها في العشر الأواخر، فمن اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر، فقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها، فالتمسوها في العشر الأواخر والتمسوها في كل وتر». قال: فمطرت السماء تلك الليلة وكان المسجد على عريش فوكف المسجد فبصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى جبهته أثر الماء والطين والماء من صبيحة إحدى وعشرين. متفق عليه في المعنى واللفظ لمسلم إلى قوله: " فقيل لي: إنها في العشر الأواخر ". والباقي للبخاري."

(كتاب الصوم،‌‌باب ليلة القدر،‌‌الفصل الأول،٦٤٤/١،ط:المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی مین ہے:

"وينقسم إلى واجب، وهو المنذور تنجيزا أو تعليقا، وإلى سنة مؤكدة، وهو في العشر الأخير من رمضان، وإلى مستحب، وهو ما سواهما هكذا في فتح القدير."

[كتاب الصوم ،الباب السابع في الاعتكاف،211/1دار الفكر بيروت وغيرها)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں