بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کے قضاء روزے میں دواعی جماع کرنے کا حکم


سوال

اگر عورت رمضان کے قضا روزوں میں سے روزے رکھے اور شوہر اس کو خلوت اور تنہائی کے لیے بلائے اور انکار کی صورت میں ناراض ہونے کا ڈر ہو تو ایسی صورتِ حال میں عورت کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اگر میاں بیوی فارغ نہ ہوں،  بلکہ صرف کھیل کر (یعنی مس اور قبلہ کرکے) انجوائے کر لیں اورصرف کپڑے کے اوپر سے ٹچ کرکے  دخول کیے بغیر مرد اپنی خواہش پوری کرکے إنزال کردے، تو کیا اس صورت میں بیوی کا روزہ رہےگا یا ٹوٹ جائے گا ؟ اگر روزہ فاسد ہوگا تو پھر اس کو قضاء کی شکل کیا ہوگی؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں عورت کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اس طرح کے افعال سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز شرعاً رمضان کے قضاء روزے رکھنے کے لیے بیوی کو شوہر کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں، بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر بھی قضاء روزے رکھ سکتی ہے، البتہ جب بیوی قضاء روزہ رکھنا چاہتی ہو، تو بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے سے شوہر  کو بتادے تاکہ اس طرح کی نوبت نہ آئے، تاہم اگر بیوی بغیر بتائے روزہ رکھ لے، تو شوہر  کو حق حاصل نہیں کہ وہ بیوی کو روزہ توڑنے پر مجبور کرے، شوہر کو چاہیے کہ وہ اس کا خیال رکھے اور چند گھنٹوں کے لیے اپنی خواہش کو قابو میں رکھے۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"(و) كره (قبلة) ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة (إن لم يأمن) المفسد وإن أمن لا بأس.
(قوله: وكره قبلة إلخ) جزم في السراج بأن القبلة الفاحشة بأن يمضغ شفتيها تكره على الإطلاق أي سواء أمن أو لا، قال في النهر: والمعانقة على التفصيل في المشهور، وكذا المباشرة الفاحشة في ظاهر الرواية، وعن محمد كراهتها مطلقاً، وهو رواية الحسن، قيل: وهو الصحيح. اهـ. واختار الكراهة في الفتح، وجزم بها في الولوالجية بلا ذكر خلاف، وهي أن يعانقها وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، بل قال في الذخيرة: إن هذا مكروه بلا خلاف؛ لأنه يفضي إلى الجماع غالباً. اهـ. وبه علم أن رواية محمد بيان لكون ما في ظاهر الرواية من كراهة المباشرة ليس على إطلاقه، بل هو محمول على غير الفاحشة، ولذا قال في الهداية: والمباشرة مثل التقبيل في ظاهر الرواية، وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة اهـ وبه ظهر أن ما مر عن النهر من إجراء الخلاف في الفاحشة ليس مما ينبغي، ثم رأيت في التتارخانية عن المحيط: التصريح بما ذكرته من التوفيق بين الروايتين وأنه لا فرق بينهما، ولله الحمد."

( کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسده،٢/ ٤١٧، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"وفي الأشباه ... ‌ولا ‌تصوم ‌المرأة نفلا إلا بإذن الزوج إلا عند عدم الضرر به.

قال عليه في الرد: (قوله ‌ولا ‌تصوم ‌المرأة نفلا إلخ) أي يكره لها ذلك كما في السراج ... وأطلق النفل فشمل ما أصله نفل لكن وجب بعارض ولذا قال في البحر عن القنية للزوج أن يمنع زوجته عن كل ما كان الإيجاب من جهتها كالتطوع والنذر واليمين دون ما كان من جهته تعالى كقضاء رمضان وكذا العبد إلا إذا ظاهر من امرأته لا يمنعه من كفارة الظهار بالصوم لتعلق حق المرأة به. اهـ."

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ‌‌فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ٢/ ٤٣٠، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں