بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان المبارک کے روزے میں بیوی سے ہمبستری کرنے کا کفارہ


سوال

ایک شخص نے رمضان کے روزے میں بیوی سے ہم بستری کر لی، پھر روزہ بھی توڑ دیا، اور عورت نے اپنا روزہ نہیں توڑا، اب اس مسئلہ میں کیا حکم ہے؟ تلافی کیسے ہو گی؟ اس گناہ سے خلاصی کیسے ہو گی؟ پیسے دینے پڑیں گے یا کچھ اور؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی غافل سو رہی تھی اور شوہر نے اس سے ہمبستری کر لی تو دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا، شوہر پر قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے، اور بیوی پر صرف قضاء لازم ہوگی، اسی طرح اگر بیوی شروع میں ہمبستری پر راضی نہیں تھی،شوہر نے زبردستی ہمبستری شروع کر دی اور بیوی اس کے بعد  درمیان میں راضی ہوئی تو ایسی صورت میں بھی بیوی پر صرف قضاء لازم ہو گی، کفارہ نہیں، البتہ شوہر پر قضاو کفارہ دونوں لازم ہیں۔

لیکن اگر بیوی ابتداء سے ہی ہمبستری کے لیے راضی تھی تو ایسی صورت میں بیوی پر بھی قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہو گا۔

قضاء اور کفارہ لازم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  ایک روزہ بطورِ قضا رکھنے کے ساتھ ایک روزے کے کفارے میں  ساٹھ روزے مسلسل رکھنے واجب ہوں گے، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی چھوٹ گیا (خواہ بیماری کی وجہ سے چھوٹا) تو از سرِ نو دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے۔  اگر روزے رکھنے کی استطاعت نہ ہو  (یعنی بہت ضعیف ہو یا مستقل مریض ہو) تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا واجب ہے، چاہے ایک ہی دن میں صبح وشام دو وقت کا کھلا دے، چاہے دو دن صبح کے وقت کھلا دے یا دو دن شام کے وقت کھلا دے، لیکن ایک شرط یہ ہے کہ جن مسکینوں کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جائے، دوسرے وقت بھی انہیں مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، اگر ایک وقت ایک مسکین کو اور دوسرے وقت دوسرے مسکین کو کھانا کھلایا تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في الفتح: واعلم أن أبا حنيفة ‌كان ‌يقول ‌أولا في المكره على الجماع عليه القضاء والكفارة؛ لأنه لا يكون إلا بانتشار الآلة وذلك أمارة الاختيار ثم رجع وقال: لا كفارة عليه وهو قولهما؛ لأن فساد الصوم يتحقق بالإيلاج وهو مكره فيه مع أنه ليس كل من انتشرت آلته يجامع. اهـ."

(کتاب الصوم، جلد: 2، صفحہ: 401، طبع: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة) . من جامع عمدا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولا يشترط الإنزال في المحلين كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعة، وإن كانت مكرهة فعليها القضاء دون الكفارة، وكذا إذا كانت مكرهة في الابتداء ثم طاوعته بعد ذلك كذا في فتاوى قاضي خان."

(النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة، کتاب الصوم، جلد1 ص:205، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں