بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں اذانِ فجر کے ساتھ کھانے پینے کا حکم


سوال

روزانہ سحری میں اذان کے ساتھ پانی پینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ روزے کا وقت صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہوتا ہے، جب کہ اذانِ فجر ٗ صبحِ صادق کے بعد ہی دی جاتی ہے؛ اس لیے صبحِ صادق کے بعد کچھ بھی کھانا یا پینا جائز نہیں ، اگر کوئی آدمی صبح صادق کے بعد بھی کھاتا پیتا رہے گا، تو اس کاروزہ شروع نہیں ہوگا،بلکہ اس پر اس دن کے روزے کی قضاء لازم ہوگی، اور شام تک روزے داروں کی طرح رہنا ہوگا؛ لہٰذا صبحِ صادق سے پہلے پہلے لازماً سحری مکمل کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

الفتاوي الهندية میں ہے:

"ووقته من حين يطلع الفجر الثاني، وهو المستطير المنتشر في الأفق إلى غروب الشمس."

(ص:١٩٤، ج:١، کتاب الصوم، الباب الأول، ط: دار الفكر، بيروت)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"(أو تسحر أو أفطر يظن اليوم) أي الوقت الذي أكل فيه (ليلا و) الحال أن (الفجر طالع والشمس لم تغرب) . . . (قضى) في الصور كلها (فقط).

(قوله: أو تسحر إلخ) أي يجب عليه القضاء دون الكفارة؛ لأن الجناية قاصرة وهي جناية عدم التثبت لا جناية الإفطار؛ لأنه لم يفسده."

(ص:٤٠٥، ج:٢، كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ط: ايج ايم سعيد)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"ولو تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع فإذا هو طالع أو أفطر على ظن أن الشمس قد غربت فإذا هي لم تغرب فعليه القضاء ولا كفارة لأنه لم يفطر متعمدا بل خاطئا ألا ترى أنه لا إثم عليه."

(ص:١٠٠، ج:٢، کتاب الصوم، فصل فی حکم فساد الصوم، ط: دار الکتب العلمية)

روزے کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"سحری کا وقت ختم ہونے پر سحری کھانا:

’’اگر سحری کا وقت ختم ہونے پر سحری کی، تو روزہ نہیں ہو گا، قضا لازم ہوگی، اور غروب آفتاب تک روزہ داروں کی طرح رہنا ضروری ہوگا، کھانا پینا جائز نہیں ہوگا ۔‘‘

(ص:١٢٠، حرف: ’’س‘‘، ط: بيت العمار، کراچی، طبعِ ششم، سنہ ٢٠١٠)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں