بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمی اور قربانی میں ترتیب


سوال

کیا حج میں قربانی رمی کے بعد کرنی چاہیے؟  اور اگر ہمیں  قربانی کا وقت معلوم نہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

حاجی کے لیے 10 ذوالحجۃ  کو تین کاموں (رمی، قربانی  اور حلق) میں ترتیب واجب ہے، یعنی سب سے پہلے رمی کرے پھر قربانی کرے (جب کہ حج تمتع یا قران کا ہو) اس کے بعد بال کٹوائے، اگر ان تین کاموں میں ترتیب قائم نہ رہی مثلاً رمی سے پہلے قربانی کردی یا حلق کرالیا یا قربانی سے پہلے حلق کرالیا تو دم واجب ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں رمی سے پہلے قربانی کرنے کی صورت میں دم ادا کرنا لازم ہوگا۔قربانی کسی ایسے معتمد شخص یا ادارے سے کروانی چاہیے جن کے متعلق اعتماد ہو  کہ وہ مقررہ وقت میں قربانی کرکے اطلاع دے دیں گے۔جب تک یقینی طورپر معلوم نہ ہوکہ قربانی ہوچکی ہے اس وقت تک حلق نہ کروائیں۔قربانی کے سلسلے میں نجی افراد یا کمپنیوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جو قربانی کا اہتمام کرتے ہیں۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ويبدأ إذا وافى منى برمي جمرة العقبة ثم بالذبح إن كان قارنا أو متمتعا ثم بالحلق لحديث عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن أول نسكنا في هذا اليوم أن نرمي ثم نذبح ثم نحلق»."

(باب رمي الجمار، ج: 4، ص: 113، ط: دارالفكر)

غنیۃ الناسک میں ہے:

"لو حلق المفرد أو غیره قبل الرمي أو القارن أو المتمتع قبل الذبح أو ذبحًا قبل الرمي فعلیه دم عند أبي حنیفة بترك الترتیب." 

(279، 280، باب الجنایات، ط: ادارۃ القرآن )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں