بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنا


سوال

کیا رمضان  کے مہینے میں بیوی کے ساتھ میل جول کرسکتے ہیں؟

جواب

رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک (یعنی روزے کی حالت میں)  بیوی کے ساتھ ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے۔ رمضان کی رات میں (غروب کے بعد سے سحری کا وقت ختم ہونے تک) بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا حلال ہے، اور روزے کی حالت میں میاں بیوی  کا اپنے اوپر اعتماد نہ ہونے کی صورت میں  بوس و کنار کرنا، یا ایک دوسرے کے اعضاءِ مستورہ کو چھونا مکروہ ہے، اور اگر میاں بیوی کا اپنے اوپر اعتماد ہو کہ بوس و کنار ہم بستری کا سبب نہیں بنے گاتو کوئی حرج نہیں، لیکن پھر بھی احتیاط بہتر ہے۔

نیز روزے کی حالت میں بوس و کنار کی وجہ سے اگر منی خارج ہوجائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، قضا لازم آئے گی۔  تاہم اگر اس دوران جماع (ہم بستری) کرلی تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم آئے گا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ."

(سورة البقرة،١٨٧)

سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن ‌عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ‌يقبلها ‌وهو ‌صائم، ‌ويمص ‌لسانها."

(سنن أبي داود، ج:2، ص: 285، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (قبلة) ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة (إن لم يأمن) المفسد وإن أمن لا بأس."

( كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، ص: 417، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك عن الأكل، والشرب، والجماع لأن الله تعالى أباح الأكل، والشرب، والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث} إلى قوله {فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر} [البقرة: 187] أي: حتى يتبين لكم ضوء النهار من ظلمة الليل من الفجر، ثم أمر بالإمساك عن هذه الأشياء في النهار بقوله عز وجل {ثم أتموا الصيام إلى الليل} فدل أن ركن الصوم ما قلنا فلا يوجد الصوم بدونه."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه من الجماع والإِنزال، ويكره إن لم يأمن، والمس في جميع ذلك كالقبلة، كذا في التبيين. وأما القبلة الفاحشة، وهي أن يمص شفتيها فتكره على الإطلاق، والجماع فيما دون الفرج والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. قيل: إن الْمباشرة الفاحشةَ تكره وإن أمن، هو الصحيح، كذا في السراج الوهاج. والمباشرة الفاحشة أن يتعانقا، وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، وهو مكروه بلا خلاف، هكَذا في الْمحيط. ولا بأس بالمعانقة إذا لم يأمن على نفسه أو كان شيخا كبيرا، هكذا في السراج الوهاج".

(كتاب الصوم، الباب الثالث فيما يكره للصائم، وما لا يكره، ج: 1، ص: 200، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں