بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان المبارک میں قیام الیل کی نیت سے باجماعت نوافل پڑھنے کا حکم


سوال

  ماہ رمضان میں تراویح کے نماز کے علاوہ نفلوں میں باجماعت قرآن کریم پڑھ  سکتے ہیں؟، قیام اللیل کے نیت سے باجماعت نماز پڑھنا۔

اگر کسی شیخ نے ایسے باجماعت نفل پڑھی ہوتو کیا اس کا یہ عمل حجت اور جائز ہوسکتا ہے ۔۔؟

جواب

1- "قیام اللیل"  رات میں پڑھی جانے والی نفل نماز کو کہتے ہیں ، اور رمضان کی تراویح ، صلاۃ الکسوف اور صلاۃ الاستسقاء کے علاوہ کسی بھی طرح کی نفل نماز کا علی سبیل التداعی جماعت کے ساتھ پڑھنا حدیث وفقہ سے ثابت نہیں ہے ؛  اس لیے   رمضان المبارک اور غیر رمضان المبارک   میں مذکورہ تینوں نمازوں کے علاوہ کوئی بھی نفل نماز  اہتمام  سے   جماعت کے ساتھ پڑھنا جس میں مقتدی کی تعداد تین سے زائد ہو چاہے تہجد ہو یا صلاۃ التسبیح ہو ، قیام اللیل ہو یا کوئی اور نماز   ہو   پڑھنا مکروہ  ہے، لہذا قیام اللیل تنہا ادا کرنی چاہیے، اور  اگر جماعت کے ساتھ پڑھ رہے ہیں تو اس میں اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ باقاعدہ جماعت کا اہتمام  نہ ہو یعنی دو یا تین سے زائد مقتدی نہ ہوں؛  کیوں کہ اگر مقتدی تین سے زائد ہوئے تو یہ تداعی کے ساتھ نوافل کی جماعت ہوگی جو کہ مکروہ  ہے، لہذا اگر تنہا قیام اللیل ادا کریں یا بغیر تداعی کے دو ،تین افراد مل کر   نفل  کی  نماز  جماعت  کے  ساتھ  پڑھ  لیں  تو  اس  میں  کراہت  نہیں  ہے۔ 

اور اگر رمضان میں جماعت کے ساتھ قیام اللیل کرنا ہو تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد  تراویح پڑھتے ہوئے تراویح  کی کچھ رکعت چھوڑدی جائیں، اور پھر ان رکعات کو  رات میں باجماعت پڑھ لیا جائے، اس میں کسی قسم کی قباحت بھی نہیں ہوگی   اور قیام اللیل کا ثواب بھی مل جائے گا، اور اس میں     تراویح  کی ہی نیت کی جائے گی۔

2-اگر  کسی    بزر گ  کا  عمل  اس  طور  پر  ہے  کہ  وہ  اعلان  اور  اہتمام  کے  بغیر  مسجد  میں  موجود  لوگوں  کے  ساتھ  جماعت  سے  نماز  پڑھتے  ہیں  تو  اس  کی  گنجائش  ہے  ،    لیکن  اگر  کوئی  بزرگ  اہتمام،  اعلان  اور    تداعی  کے  ساتھ    لوگوں  کو  بلا  کر  نوافل  کی  جماعت  کرے  تو    یہ  درست  نہیں  ۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ میں  ہے:

"و أصل هذا أن التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره."

( باب الامامة ، ج:3 / ص:382):

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة  میں  ہے: -

"(و الجماعة سنة مؤكدة للرجال ) قال الزاهدي أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة و عيد فشرط و في التراويح سنة كفاية و في وتر رمضان مستحبة على قول وفي وتر غيره و تطوع على سبيل التداعي مكروهة و سنحققه ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن."

 ( باب الامامة، ج:1 / ص:552):

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة  میں  ہے:

"على سبيل التداعي بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع  نهر."

 ( باب ادراك الفريضة ، ج:2 / ص:49)

بدائع  الصنائع  میں  ہے  :

"اذا  صلو ا  التراویح  ثم  ارادوا  ان  یصلوھا  ثانیا  یصلون  فرادی  لا  بجماعة،لان الثانية تطوع مطلق، والتطوع المطلق بجماعة مكروه."

(ج:1، ص:290)

علامه ابن نجيم رحمه الله فرماتے هيں :

"ولو صلوا التراويح ثم ارادوا ان يصلوا ثانيا يصلون فرادي."

(البحر الرائق ، ج:2 ص:74)

(مذکور ہ  بالا  نصوص  سے  معلوم  ہوا  کہ  تراویح  کی  جماعت  دوسری  مرتبہ  جماعت  کیساتھ  جائز  نہیں  ،  کیونکہ  دوسری  مرتبہ  پڑھی  جانے  والی  تراویح  "نفل  مطلق"  ہوگی  ،  اور  نفل  مطلق    جماعت  کے  ساتھ  "مکروہ  تحریمی " ہے،  خواہ  رمضان  میں  ہو  خواہ  غیر  رمضان  ‏میں)۔

عنايه شرح هدايه ميں هے:

"(فصل في قيا م شهر رمضان)  ذكر التراويح في فصل علي حدة لاختصاصها بما ليس لمطلق النوافل."

(عناية علي هامش الفتح ، ج:1 ص:333)

فتاوی  شامی  میں  ہے  :

"[تتمة] أشار بقوله فرادى إلى ما ذكره بعد في متنه من قوله ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد، وتمامه في شرحه، وصرح بكراهة ذلك في الحاوي القدسي. قال: وما روي من الصلوات في هذه الأوقات يصلى فرادى غير التراويح."

(ج:2، ص:26، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں