بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا رمضان میں فجر کے وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دینا جائز ہے؟


سوال

 ہمارا علاقہ انڈیا حیدرآباد دکن میں ضلع نلگنڈہ کا تعلقہ مریال گوڑہے۔ یہاں علماء کرام نے جو قدیم دائمی نظام الاوقات دکن حیدرآباد میں اختتام ِوقت ِسحر اور ابتداءِ وقتِ نماز فجر میں جو بیس یا بائیس منٹ کا وقفہ ہے، رمضان المبارک میں چوں کہ عوام الناس میں اکثریت کا معمول اذانِ فجر تک کھانے کا ہے، جب کہ سحر کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے، ایسےمیں پچھلے دو سال سے خاص کر روزہ کی حفاظت کی غرض سے ابتداء وقت اذان فجر مروجہ میں سے دس مِنٹ گھٹاکر اذان دلوانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔( یعنی جو وقفہ سحر کے آخری وقت سے فجر کے شروع وقت کے   درمیان میں ہے) ۔

1۔ سوال طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ ہمارا عمل از روۓ شرع صحیح ہےیا غلط ؟ جب کہ بعضے سفراء عوام الناس میں یوں بات پھیلائی کہ یہ فقہ حنفی کے خلاف ہے۔

2۔کیاوقت سے پہلے اذان دینے میں حنفی شافعی دیوبندی و بریلوی کی کوئی تفریق ہے ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اختتامِ وقتِ سحر اور ابتدائے وقتِ فجر  کے  درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں ؛ بلکہ جیسے ہی وقت سحری ختم ہوجاتاہے اس کے فوراً بعد نمازِ فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور سحری کا وقت ختم ہونے کے دس منٹ بعد اذان دینے سے ان لوگوں کی درست راہ نمائی نہیں ہو تی جو اذان کی آواز سننے پر  سحری ختم کرتے ہیں  ،لہذا مناسب یہی ہے کہ سحری کا وقت ختم ہوتے ہی جب صبح صادق کا وقت شروع ہو جاتا ہے تو فوراً اذانِ فجرکہی جائے،نیز فجر کا وقت داخل ہو نے سے پہلے اذان دینا بھی درست نہیں، اس سے فجر کی اذان نہیں ہو گی، وقت کے اندر اذان کا اعادہ کرنا لازم ہو گا۔

2:وقت سے پہلے اذان دینے کےعدم جواز پرائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا اتفاق ہے ، البتہ ائمہ ثلاثہ اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ صرف فجر کی اذان وقت سے پہلے دینے کو جائز قرار دیتے ہیں،  لیکن احناف کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہےبلکہ مفتی بہ قول عدم جو از کا ہے ، اور احناف کا مسلک نقلی اور عقلی دلائل دونوں سے مؤید اور قوی ہے۔

عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں فجر کی دو اذانیں ہونے میں ائمہ احناف جہاں مختلف تطبیق دیتے ہیں ان میں سے  راجح یہ ہے کہ یہ پہلی اذان پورا سال نہیں ہوتی تھی، بلکہ صرف  رمضان میں ہوتی تھی؛ تاکہ سونے والے جاگ جائیں، اور روزہ رکھنے والے سحری کرلیں،  اور اس کے بعد وقت داخل ہونے پر دوبارہ اذان دی جاتی تھی، علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فیض الباری میں شرعۃ الاسلام  کے حوالہ سے نقل کیا ہے  کہ رمضان میں دو اذانوں پر عمل احناف کے نزدیک بھی جائز ہے،تو بوقتِ ضرورت اس پر عمل کیا جاسکتا ہےلیکن اس صورت میں بھی پہلی اذان، اذانِ فجر نہیں ہو گی،اس لیے  وقت داخل ہونے کے بعد دوبارہ اذان دینا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا) يسن (لغيرها) كعيد (فيعاد أذان وقع) بعضه (قبله) كالإقامة خلافا للثاني في الفجر. (قوله: خلافا للثاني) هذا راجع إلى الأذان فقط، فإن أبا يوسف يجوز الأذان قبل الفجر بعد نصف الليل ح".

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،ج:1،ص:385،ط:سعید)

و فیہ ایضاً:

"(وقت) صلاة (الفجر) قدمه لأنه لا خلاف في طرفيه، وأول من صلاه آدم۔۔۔(من) أول (طلوع الفجر الثاني) وهو البياض المنتشر المستطير لا المستطيل (إلى) قبيل (طلوع ذكاء) بالضم غير منصرف اسم الشمس."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:359،357، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان وقت الأذان والإقامة فوقتهما ما هو وقت الصلوات المكتوبات، حتى لو أذن قبل دخول الوقت لايجزئه ويعيده إذا دخل الوقت۔۔۔."

(کتاب الصلاۃ،وأما بيان وقت الأذان والإقامة،ج:1،ص:503،504،ط:المکتبۃ التوقيفية)

 

العرف الشذی شرح الترمذی میں ہے :

"وأجيب عن حديث الباب من جانب الأحناف بأن التكرار كان للتسحير كما في كتاب الحج، وهو المتبادر من ألفاظ الصحيحين «ليرجع قائمكم، وينتبه نائمكم» ولازمه أن يكون التكرار في رمضان، وصرح الحافظ عبد الملك بن قطان المغربي الفارسي الشافعي، والحافظ تقي الدين بن دقيق العيد: بأن التكرار كان في رمضان، وفي شرعة الإسلام استحباب الأذان للتسحير في رمضان والكتاب معتبر لأن المصنف هو شيخ صاحب الهداية، وأيضا أقول: إن التكرار لم يكن مستمرا في السنة كلها وفي هذه الدعوى مادة كثيرة في معاني الآثار والزيلعي وروايات أخر عندي، ولعله كان حين كان تحريم الطعام في رمضان بفعل اختياري، ويدل على هذا أي التحريم بفعل اختياري ما في معاني الآثار ص63 عن نافع عن ابن عمر عن حفصة بسند قوي من أن النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الركعتين بعد أذان الفجر، ثم يذهب يحرم الطعام، وكان لا يؤذن حتى يصبح، ولنا في ابتداء الصوم قولان: قيل: من ابتداء طلوع الفجر، وقيل: من حين انتظار الصبح وقال: الآخرون: إن حكم الأكل إلى ما بعد الصبح منسوخ، وحملوا فعل أبي بكر الصديق حين كان يأكل فأخبر بطلوع الفجر فقال: أغلق الباب، على النسخ، وفي فتح الباري روايات موقوفة ومرفوعة دالة على ختم السحر بالفعل الاختياري".

(‌‌باب ما جاء في الأذان بالليل،ج:1،ص:217،ط:‌‌دار التراث العربي -بيروت، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں