بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں وتر باجماعت پڑھنا افضل ہے


سوال

الحمدللہ ہمارے گھر میں ان حالات میں تراویح کی  نماز جماعت ہورہی ہے اور میرے گھر کے تمام لوگ وتر جماعت سے پڑھتے ہیں اور میں نہیں پڑھتا ہوں، مگر تہجد کے وقت تنہا وتر پڑھتا ہوں ، اس لیے کہ میں نے سنا ہے کہ وتر تہجد کے وقت پڑھنا افضل ہےتو  کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ اور میرے گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے ؟

جواب

رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا افضل ہے، اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں وتر باقاعدہ جماعت سے (یعنی تداعی کے ساتھ) پڑھنا مکروہ ہے، اور رمضان کے علاوہ وتر کی نماز کو رات کے آخری پہر تک مؤخر کرکے تہجد کے بعد پڑھنا اس شخص کے لیے افضل ہے جسے رات کو اٹھنے کا غالب گمان ہو یا وہ تہجد کی پابندی کرنے والا ہو۔

لہذا آپ کا رمضان المبارک میں وتر کی نماز کوجماعت سے ترک کرنا درست نہیں، وتر باجماعت داکیے جائیں اور رات کو فقط تہجد کی نماز پڑھ لی جائے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پورے سال (رمضان المبارک ہو یا غیر رمضان) وتر کی نماز کے بعد نوافل یا تہجد کی نماز پڑھنا جائز ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح - (1 / 163):
"( ويوتر بجماعة ) استحبابًا ( في رمضان فقط ) عليه إجماع المسلمين؛ لأنه نقل من وجه والجماعة في النقل في غير التراويح مكروهة، فالاحتياط تركها في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمة أن هذا فيما كان على سبيل التداعي، أما لو اقتدى واحد بواحد أو اثنان بواحد لايكره، وإذا اقتدى ثلاثة بواحد اختلف فيه، وإذا اقتدى أربعة بواحد كره اتفاقًا. (وصلاته ) أي الوتر ( مع الجماعة في رمضان أفضل من أدائه منفردا آخر الليل في اختيار قاضيخان قال ) قاضيخان رحمه الله: ( هو الصحيح ) لأنه لما جازت الجماعة كان أفضل ولأن عمر رضي الله عنه كان يؤمهم في الوتر ( وصححه غيره ) أي غير قاضيخان".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 369):
"(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل.
(قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله صلى الله عليه وسلم: «من خاف أن لايوتر من آخر الليل فليوتر أوله، ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ). رواه مسلم والترمذي وغيرهما. وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين: «اجعلوا آخر صلاتكم باللیل وتراً» والأمر للندب بدليل ما قبله، بحر.
(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولايعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين، إمداد.
ولايقال: إن من لايثق بالانتباه فالتعجيل في حقه أفضل، كما في الخانية. فإذا انتبه بعدما عجل يتنفل ولاتفوته الأفضلية؛ لأنا نقول: المراد بالأفضلية في الحديث السابق هي المترتبة على ختم الصلاة بالوتر وقد فاتت، والتي حصلها هي أفضلية التعجيل عند خوف الفوات على التأخير، فافهم وتأمل".فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں