رمضان المبارک میں ختم القرآن کے موقع پر ہمارے گاؤں میں محلے والے چندہ کرکے مٹھائیاں، کھانا منگواتے ہیں اور لوگ بظاہر خوشی سے چندہ دیتے ہیں آیا اس طرح سے ٹھیک ہے یا نہیں، رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں رمضان المبارک میں ختم القرآن کے موقع پر چندہ کرکے مٹھائی تقسیم کرنا شریعت سے ثابت نہیں، اس لئے اس کو ترک کردینا ضروری ہے۔ ہاں اگر نمازی حضرات چندہ کے بغیر انفرادی طور پر مٹھائی لاتے ہیں یا پیسے دیتے ہیں پھر مٹھائی تقسیم کرنا درست ہے، البتہ مسجد کی بے حرمتی، شور شرابہ اور فرش کو خراب کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
حلبی کبیر میں ہے:
"عن معاذ بن جبل ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: جنبوا مساجدكم صبيانكم و مجانينكم وشرائكم و بيعكم و خصوماتكم و رفع اصواتكم واقامة حدودكم سل سيوفكم و اتخذوا على ابوابها المطاهر و جمروها في الجمع و المراد بالبيع و الشراء ما كان للتجاره و الكسب كما هو الظاهر من الاحاديث۔"
(فصل فی احکام المساجد:611)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري مرفوعا "جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر"۔
(كتاب الصلاة، فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر: 1/ 656، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100205
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن