بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے کا حساب و کتاب


سوال

کیا رمضان میں  مرنے  والے کا  حساب  و  کتاب  ہوگا؟

جواب

رمضان المبارک اور جمعہ کے دن انتقال کرنے  والوں کے بارے میں روایات میں آتا ہے ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے،  اب یہ عذاب صرف رمضان المبارک اور جمعہ کے دن ہٹایا جاتا ہے یا تاقیامت ،   اس کے بارے میں بعض علماء فرماتے ہیں: صرف ماہ رمضان المبارک اور جمعہ کے دن   یہ عذاب اٹھادیا جاتا ہے، اور بعض فرماتے ہیں : تاقیامت ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے اور  یہ قبر میں راحت وآرام کے ساتھ رہتے ہیں۔

زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں یہ حکم عمومی ہے کہ  اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو تا قیامت عذابِ قبر ومنکر نکیر کے سوال سے محفوظ رہے گا، اور اللہ کی رحمت سے یہ بعید بھی نہیں کہ وہ حشر میں بھی  اس سے حساب نہ لیں ، جیساکہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  کے ملفوظات میں ہے:

”  فرمایا: رمضان میں اگر انتقال ہو تو ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن حساب نہیں ہوتا ۔ یہی جی کو لگتا ہے اور  أنا عند ظن عبدي بي پر عمل کرے۔“(26/405)

  اور اگر کوئی غیر مسلم  رمضان المبارک میں مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا،اور رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 165):

’’ويأمن الميت من عذاب القبر ومن مات فيه أو في ليلته أمن من عذاب القبر.

(قوله: و يأمن الميت من عذاب القبر إلخ) قال أهل السنة و الجماعة: عذاب القبر حقّ و سؤال منكر و نكير و ضغطة القبر حقّ، لكن إن كان كافرًا فعذابه يدوم إلى يوم القيامة و يرفع عنه يوم الجمعة و شهر رمضان فيعذب اللحم متصلًا بالروح و الروح متصلًا بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، و إن كان خارجًا عنه، و المؤمن المطيع لايعذّب بل له ضغطة يجد هول ذلك و خوفه و العاصي يعذب و يضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة و ليلتها ثم لايعود و إن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعة واحدة و ضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصًا.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں