بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں عورت کا عشاء کی نماز میں مرد کی اقتدا کرنا


سوال

کیا مرد کے پیچھے عورت رمضان شریف کے مہینے میں عشاء اور وتر کی نماز پڑھ سکتی ہے ؟

جواب

مردوں کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ عورتوں کے لیے  مسجد  میں نماز  پڑھنے کے لیے گھر سے نکلنا مکروہِ  تحریمی  ہے،  لہذا مردوں کو مسجد میں اور عورتوں کو گھر میں نماز ادا کرنی چاہیے، اگرکسی وجہ سے مسجد میں جماعت ہوجائے  یا مسجد میں نماز کا موقع نہ مل سکے  تو  ایسی صورت  میں مرد کو چاہیے کہ یا تو دوسری مسجد  کی جماعت میں شامل ہوجائے، ورنہ تنہا نماز ادا کرنے کے  بجائے اس کے لیے گھر  والوں کے ساتھ  مل کر جماعت سے نمازپڑھنا افضل ہے، رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے تھے، جب آپ ﷺ  واپس تشریف لائے اور مسجد پہنچے تو جماعت ہوچکی تھی، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے گھر تشریف لے جاکر گھر والوں کو جماعت سے نماز پڑھائی تھی۔

مذکورہ تفصیل رمضان میں عشاء اور وتر کی نماز سمیت تمام نمازوں کے لیے اور غیر رمضان میں تمام نمازوں کے لیے ایک ہی ہے۔

اگر کسی گھر میں تراویح میں تکمیلِ قرآنِ پاک کا اہتمام کیا جارہاہو تو بھی مردوں کو چاہیے کہ وہ فرض نماز مسجد میں جماعت سے ادا کریں، اور خواتین گھر پر ہی فرض نماز ادا کریں، پھر مرد امام تراویح کی نماز گھر پر پڑھائے اور اس کی اقتدا میں گھر کی خواتین مردوں کے پیچھے صف میں نماز ادا کریں تو یہ درست ہے، اس صورت میں تراویح کے بعد وتر کی نماز بھی باجماعت ادا کی جاسکتی ہے۔ 

سنن النسائي (2/ 104):

" أن قزعة مولى لعبد القيس أخبره أنه سمع عكرمة قال: قال ابن عباس: «صليت إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم وعائشة خلفنا تصلي معنا، وأنا إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم أصلي معه»".
ترجمہ:  عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے برابر میں نماز پڑھی اور ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ تھیں وہ بھی ہمارے ہم راہ نماز میں شریک تھیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  (1/ 553):

(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

وفیه أیضًا (1/ 395):

"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل.
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لايخفى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں