بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں کرکٹ اور گیم کھیلنے کا حکم


سوال

1.رمضان کے مہینے میں کرکٹ دیکھنا ،کھیلنا کیسا ہے؟

2.گیم کھیلنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1. واضح رہے کہ بطورِ ورزش کرکٹ  کھیلنا درست ہے،البتہ کرکٹ کے کھیل کومقصود بنالینا ،اور اس میں مشغول ہوکر فرائض کا لحاظ نہ رکھنا ،یا رقم لگا کرکرکٹ کھیلنا، یہ  صورتیں  درست نہیں،نیز رمضان المبارک کا مہینہ بابرکت مہینہ ہے،جس کا ہر لمحہ قیمتی ہے،اس مبارک مہینہ میں ایسے فضول کاموں سے بچنا چاہیے ،اگر کرکٹ ٹی وی  یا کسی اور آلہ کے ذریعہ دیکھا جائے تو اس کا دیکھنا جائز نہیں،اور اگر اس کے  علاوہ  (براہِ راست میدان  میں)  دیکھا جائے تو اس میں   وقت کا ضیا ع  ہے، لہذا  اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ کھیل کے جواز کے لیے  تین شرطیں ہیں:  ایک یہ کہ: کھیل سے مقصود محض ورزش یا تفریح ہو، خود اس کو مستقل مقصد نہ بنالیا جائے۔ دوم یہ کہ: کھیل بذاتِ خود جائز بھی ہو، اس کھیل میں کوئی ناجائز بات نہ پائی جائے۔ سوم یہ کہ: اس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا نہ ہو۔ اس معیار کو سامنے رکھا جائے تو اکثر و بیشتر کھیل ناجائز اور غلط نظر آئیں گے۔ ہمارے کھیل کے شوقین نوجوانوں کے لیے کھیل ایک ایسا محبوب مشغلہ بن گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں نہ انہیں دِینی فرائض کا خیال ہے، نہ تعلیم کی طرف دھیان ہے، نہ گھر کے کام کاج اور ضروری کاموں کا احساس ہے۔ اور تعجب یہ کہ گلیوں اور سڑکوں کو کھیل کا میدان بنالیا گیا ہے، اس کا بھی احساس نہیں کہ اس سے چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور کھیل کا ایسا ذوق پیدا کردیا گیا ہے کہ ہمارے نوجوان گویا صرف کھیلنے کے لیے  پیدا ہوئے ہیں، اس کے سوا زندگی کا گویا کوئی مقصد ہی نہیں، ایسے کھیل کو کون جائز کہہ سکتا ہے؟ ‘‘۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل  ج:8 ص:407)

2:گیم کھیلنا جائز نہیں، کیوں کہ  اس میں دینی اور جسمانی دونوں اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ محض اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے اور ایک مسلمان کے لیے اپنے قیمتی وقت کا ضائع کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے،  قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فضول کاموں سے بچنے کو ایمان والوں کی صفت قراردی ہے،چنانچہ باری تعالیٰ کا رشاد ہے:

"قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ  الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ" (المؤمنون:1،2،3)

ترجمہ : ”بالتحقیق ان مسلمانوں نے آخرت میں فلاح پائی۔جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔اور جو لغو باتوں سے (خواہ قولی ہوں یا فعلی) پر کنار رہنے والے ہیں۔

(از بیان القرآن)

اسی طرح حضور اکرمﷺ  نے لایعنی کاموں  سے بچنے کو کامل ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من حسن إسلام المرء تركه مالا يعنيه."

(کتاب الزهد، باب قبیل باب في قلة الکلام: ج:4،ص:558، ط: دار إحیاء التراث العربي)

ترجمہ: ” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے ۔“

خصوصاً بچے جب ان کھیلوں کے عادی ہوجاتے ہیں، تو اُن کی تعلیم کا بھی حرج ہوتا ہے، لہذا ایسے  لایعنی اور غیر مفید کاموں میں وقت کو ضائع کرنا ناجائز ہے، معتبر ذرائع سے موصول اطلاع کے مطابق بعض  گیم انسانی تصاویر اور موسیقی وغیرہ پر بھی مشتمل ہوتے ہیں، ایسے گیم وقت کے ضیاع کے ساتھ جان دار کی تصاویر اور موسیقی جیسے مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کھیلنا از روئے شرع حرام ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من حسن إسلام المرء) أي: من جملة محاسن إسلام الشخص وكمال إيمانه (تركه ما لا يعنيه) ، أي: ما لا يهمه ولا يليق به قولا وفعلا ونظراوفكرا فحسن الإسلام عبارة عن كماله، وهو أن تستقيم نفسه في الإذعان لأوامر الله تعالى ونواهيه، والاستسلام لأحكامه على وفق قضائه وقدره فيه، وهو علامة شرح الصدر بنور الرب، ونزول السكينة على القلب، وحقيقة ما لا يعنيه ما لا يحتاج إليه في ضرورة دينه ودنياه، ولا ينفعه في مرضاة مولاه بأن يكون عيشه بدونه ممكنا، وهو في استقامة حاله بغيره متمكنا، وذلك يشمل الأفعال الزائدة والأقوال الفاضلة، فينبغي للمرء أن يشتغل بالأمور التي يكون بها صلاحه في نفسه في أمر زاده بإصلاح طرفي معاشه ومعاده، وبالسعي في الكمالات العلمية والفضائل العملية التي هي وسيلة إلى نيل السعادات الأبدية، والفوز بالنعم السرمدية، ولعل الحديث مقتبس من قوله تعالى: {والذين هم عن اللغو معرضون} [المؤمنون: 3]."

(کتاب الزهد، باب حفظ اللسان، ج:7، ص:3040، ط: دارالفكر)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(قبيل كتاب الرؤيا، ص:435، ج: 4، ط: دار العلوم كراچى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں