بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کی ستائیسویں شب کو اجتماعی دعاکا حکم


سوال

ہماری مسجد میں دو پارے (جزء)سے تراویح ہوتی ہے، ۱۵ میں قرآن مکمل ہو جاتا ہے اور دعاء ہوجاتی ہے،اس کے بعد ۱۶تا۳۰ سورۃ الفیل سے دس سورتیں تراویح میں پڑھتے ہیں ، بعض لوگ ستائیسویں شب کو تراویح کے بعد اجتماعی دعا پر اصرار کرتے ہیں اور ضروری بھی سمجھتے ہیں تو ایسا کرنا کیسا ہے؟ اور اجتماعی دعا کا ثبوت اور مواقع کیا ہے؟ شرعی اعتبار سے رہنمائی کرکے مشکوروممنون فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ جن مواقع پر آپ ﷺ سے اجتماعی طور پر دعا کرنا ثابت ہو   مثلًا   نمازوں کے بعد،  عیدین  یا کسوف کے موقع پر،  تدفین کے بعد وغیرہ، ان مواقع پر اجتماعی دعا کرنا جائز ہے، اور  جن مواقع پر اجتماعی دعا کرنا منقول نہ ہو،  لیکن اس کی ممانعت بھی نہ  ہو، تو وہاں اجتماعی دعا کو لازم سمجھے بغیر موقع محل کی مناسبت سے اجتماعی طور پر دعا کرلی جائے  تو یہ بھی منع نہیں ہے، اور  جہاں اجتماعی دعا کرنا ثابت نہ ہو  وہاں اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر  یا کسی خاص فضیلت کا باعث سمجھ کر کرنا یا جہاں دعا کرنا ثابت ہے ، لیکن صرف ثبوت یا استحباب ثابت ہے، وہاں اسے لازم سمجھنا، یا کسی خاص کیفیت کو لازم سمجھ کر اجتماعی دعا کا التزام کرنا اور  نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا جائز  نہیں ہے۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں رمضان کی ستائیسویں شب کو اجتماعی طور پر دعا کو لازم  سمجھنا اور اس پر اصرار  کرناشرعاًجائز نہیں ،اس سے اجتناب کرنا چاہیے ،البتہ انفرادی طور پر دعا کا اہتمام جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في إحياء ليالي العيدين والنصف وعشر الحجة ورمضان

(قوله وإحياء ليلة العيدين) الأولى ليلتي بالتثنية: أي ليلة عيد الفطر، وليلة عيد الأضحى(قوله والنصف) أي وإحياء ليلة النصف من شعبان.(قوله والأول) أي وليالي العشر الأول إلخ. وقد بسط الشرنبلالي في الإمداد ما جاء في فضل هذه الليالي كلها فراجعه.

(قوله ويكون بكل عبادة تعم الليل أو أكثره) نقل عن بعض المتقدمين، قيل هو الإمام أبو جعفر محمد بن علي أنه فسر ذلك بنصف الليل وقال " من أحيا نصف الليل فقد أحيا الليل " وذكر في الحلية أن الظاهر من إطلاق الأحاديث الاستيعاب، لكن في صحيح مسلم عن عائشة قالت " ما أعلمه - صلى الله عليه وسلم - قام ليلة حتى الصباح " فيترجح إرادة الأكثر أو النصف، لكن الأكثر أقرب إلى الحقيقة ما لم يثبت ما يقتضي تقديم النصف. اهـ

وفي الإمداد: ويحصل القيام بالصلاة نفلا فرادى من غير عدد مخصوص، وبقراءة القرآن، والأحاديث وسماعها، وبالتسبيح والثناء، والصلاة والسلام على النبي - صلى الله عليه وسلم - الحاصل ذلك في معظم الليل وقيل بساعة منه. وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - بصلاة العشاء جماعة، والعزم على صلاة الصبح جماعة، كما قالوه في إحياء ليلتي العيدين. وفي صحيح مسلم قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من صلى العشاء في جماعة فكأنما قام نصف الليل، ومن صلى الصبح في جماعة فكأنما قام الليل كله» . اهـ.

[تتمة] أشار بقوله فرادى إلى ما ذكره بعد في متنه من قوله ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد، وتمامه في شرحه، وصرح بكراهة ذلك في الحاوي القدسي. قال: وما روي من الصلوات في هذه الأوقات يصلى فرادى غير التراويح۔"

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج:۲،ص:۲۶،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں