بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کا روزہ اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے توڑنے کا حکم


سوال

میں  نے ایک  روزہ  رکھا، لیکن میری طبیعت خراب ہوگئی اور میرا روزہ ٹوٹ گیا، تو قضا تو میں کروں گا، کیا اس کا کفارہ بھی ہوگا کیا؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر طبیعت اتنی زیادہ خراب ہوگئی تھی کہ روزہ رکھنے کی بالکل قدرت نہیں رہی تھی، یا  دوا وغیرہ نہ لینے کی صورت میں مرض کے بڑھ جانے کا غالب گمان تھا، یا کسی مسلمان ڈاکٹر نے روزہ افطار کرکے دوا کا استعمال تجویز کردیا تھا، اس وجہ سے روزہ افطار کرلیا تو اس روزے کی صرف قضا ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

اگر اس کے علاوہ کوئی صورت تھی، تو اس کی وضاحت کرکے نیز "میرا روزہ ٹوٹ گیا" کی بھی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کرسکتے ہیں۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:207، ط:دار الفكر):

’’(ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين ولو كان له نوبة الحمى فأكل قبل أن تظهر الحمى لا بأس به كذا في فتح القدير. ومن كان له حمى غب فلما كان اليوم المعتاد أفطر على توهم أن الحمى تعاوده وتضعفه فأخلفت الحمى تلزمه الكفارة كذا في الخلاصة.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144209202404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں