بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کا چاند دیکھ کر مبارک باد دینے کا حکم اور بیس رکعات تراویح کا ثبوت


سوال

کیا رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر مبارک باد دے سکتے ہیں؟

ہمارے فلیٹ میں تراویح کے معاملے میں جھگڑا چل رہا ہے، ایک صاحب کہتے ہیں کہ آٹھ رکعات ہوگی، باقی سب فلیٹ والے کہتے ہیں کہ بیس رکعات ہوتی آرہی ہے اس لیے بیس رکعات ہی ہوگی، اب فلیٹ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جو فتوی ہوگا اس کے مطابق تراویح ہوگی، تو سب نے مان لیا ہے، آپ جلدی جواب دے دیں  تراویح کی رکعت کتنی ہے؟ اور شریعت میں کیا حکم ہے؟ کسی حدیث وغیرہ میں جو بھی حکم ہو وہ بتادیں ۔

جواب

1)واضح رہے کہ رمضان کے چاند کی فی نفسہ مبارک باد دینا توجائز ہے، لیکن اس کا اہتمام و التزام کرنا درست نہیں، اور نہ ہی اس میں کوئی ثواب ہے، البتہ ہر مہینہ کا چاند دیکھ کر  اپنے لیے خیر و برکت کی دعا کرنا  ثابت ہے، لہذا مسنون دعا کے الفاظ کے ساتھ اس کا اہتمام  کرناچاہیے۔

علامہ بیہقی کی "الدعوات الکبیر" میں ہے:

" نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم پہلی رات کا چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھتے تھے:اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ وَالتَّوْفِيقِ لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضَى، رَبُّنَا وَرَبُّكَ اللَّهُ.
عن ابن عمر رضي الله عنهما ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، إذا رأى الهلال قال : الله أكبر اللهم أهله علينا بالأمن والإيمان ، والسلامة والإسلام ، والتوفيق لما تحب وترضى ، ربنا وربك الله".

 (ج:2، ص:124،  ط: غراس للنشر والتوزيع - الكويت)

2)بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض روایات میں اس کا ثبوت ملتاہے،جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا  اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر یہ فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو! اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ)

بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا،  یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کروایا تو ان پر کسی نے نکیر نہیں کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، اور صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت مؤکدہ ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرام کی مخالفت اور گُمراہی ہے، نیز بیس رکعات سے کم رکعات ادا کرنا سنت کے خلاف ہے، نیز آٹھ رکعات تراویح نہیں، بلکہ تہجد ہے۔ تراویح کے بارے میں فتوی بیس رکعت پر ہی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے اردو خواں حضرات جامعہ کے ترجمان رسالہ ”ماہنامہ بینات“ (مشترکہ شمارہ شعبان رمضان 1441ھ اپریل مئی 2020ء) میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون :رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ؟ملاحظہ فرمائیں۔

امام بیہقی رحمہ اللہ کی "السنن الکبریٰ" میں ہے: 

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعةً و الوتر."

( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ج:2، ص:496، ط: اداره تالیفات اشرفیه)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر."

(كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة، ج:2، ص:286، ط: طیب اکیدمي ) (المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: 789، ج:1، ص:233، و رقم الحديث: 5440، ج:4، ص:126، ط: دار الفكر)

عمدۃ القاری شرح صحیح للبخاری میں ہے:

"روى عبد الرزاق في (المصنف) عن داود بن قيس وغيره عن محمد بن يوسف (عن السائب بن يزيد: أن عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه، جمع الناس في رمضان على أبي بن كعب، وعلى تميم الداري على إحدى وعشرين ركعةً يقومون بالمئين وينصرفون في بزوغ الفجر، قلت: قال ابن عبد البر: هو محمول على أن الواحدة للوتر. وقال ابن عبد البر: وروى الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب عن السائب بن يزيد، قال: كان القيام على عهد عمر بثلاث وعشرين ركعةً. قال ابن عبد البر: هذا محمول على أن الثلاث للوتر. وقال شيخنا: وما حمله عليه في الحديثين صحيح، بدليل ما روى محمد بن نصر من رواية يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد أنهم كانوا يقومون في رمضان بعشرين ركعةً في زمان عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه. وأما أثر علي رضي الله تعالى عنه، فذكره وكيع عن حسن بن صالح عن عمرو بن قيس عن أبي الحسناء عن علي رضي الله تعالى عنه، أنه أمر رجلاً يصلي بهم رمضان عشرين ركعةً. وأما غيرهما من الصحابة فروي ذلك عن عبد الله بن مسعود، رواه محمد بن نصر المروزي قال: أخبرنا يحيى بن يحيى أخبرنا حفص بن غياث عن الأعمش عن زيد بن وهب، قال: (كان عبد الله بن مسعود يصلي لنا في شهر رمضان) فينصرف وعليه ليل، قال الأعمش: كان يصلي عشرين ركعةً ويوتر بثلاث). وأما القائلون به من التابعين: فشتير بن شكل، وابن أبي مليكة والحارث الهمداني وعطاء بن أبي رباح، وأبو البحتري وسعيد بن أبي الحسن البصري أخو الحسن وعبد الرحمن ابن أبي بكر وعمران العبدي. وقال ابن عبد البر: وهو قول جمهور العلماء، وبه قال الكوفيون والشافعي وأكثر الفقهاء، وهو الصحيح عن أبي بن كعب من غير خلاف من الصحابة".

( باب فضل من قام رمضان، ج:8، ص246،  ط: دارالفکر بیروت)

مرقاةاالمفاتیح  میں ہے:

"لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً."

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ج:3، ص:382، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين."

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ج:2، ص:43، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں