بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کا آخری روزہ


سوال

شوال کا چاند نظر آنے سے پہلے تیس روزے مکمل کرکے اگر کوئی شخص عید کرے اور حقیقت  شوال کا چاند نظر بھی نہ آئے تو کیا اس شخص پر کفارہ ہے؟

جواب

سائل کا سوال مبہم اور غیر واضح ہے، اگر  سائل کی مراد یہ ہے کہ مذکورہ شخص نے دوسرے لوگوں کے ساتھ رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع کیے اور تیس روزے پورے کرنے کے بعد بھی  شوال کا چاند نظر نہیں آیا تو  اس صورت کا حکم یہ ہے کہ   جب رمضان المبارک کا مہینہ باقاعدہ چاند دیکھ کر شروع کیا گیا تو تیس روزے پورے ہونے کے بعد  شوال کا مہینہ شروع ہوجائے گا، اور  تمام لوگ عید الفطر منائیں گے، اس لیے کہ چاند کا مہینہ تیس دن سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔  اور اس صورت میں شوال کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھنا از روئے حدیثِ مبارک ممنوع ٹھہرے گا۔

اور اگر اس صورت کا مطلب یہ ہے کہ  اس  شخص نے  رمضان  کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہی روزے  شروع  کردیے تھے،مثلًا  لوگوں کے روزے شروع کرنے سے ایک دن پہلے ہی شک کی وجہ سے اس نے روزہ رکھ لیا،  تب   ہی 30  روزوں  کے بعد بھی شوال کا مہینہ شروع نہیں ہوا، اس صورت میں وہ شخص جب تک شوال کا چاند نظر نہ آئے  یا اس علاقے کے لوگوں کے تیس روزے پورے نہ ہوں،  وہ بھی روزہ رکھے؛  اس لیے کہ ابھی اس کے رمضان کے تمام روزے ادا نہیں ہوئے۔  اور اگر یہ شخص لوگوں سے پہلے ہی عید کرلیتا ہے اور رمضان المبارک کی آخری تاریخ کا روزہ رکھتا ہی نہیں ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، اور اس کے ذمے ایک روزے کی قضا ہوگی، تاہم اس صورت میں روزے کا کفارہ نہیں ہوگا، کیوں کہ روزے کا کفارہ اس صورت میں لازم آتاہے جب کہ رمضان المبارک میں کوئی عاقل بالغ مسلمان صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت کرکے روزہ رکھ لے، اور کسی شرعی عذر کے بغیر کسی غذا یا دوا کو قدرتی منافذ (جسم میں داخل ہونے کے راستوں) سے داخل کرکے روزہ توڑ دے۔

ملحوظ رہے کہ رمضان المبارک  سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 372):

"(وسبب صوم) المنذور النذر ولذا لو عين شهرا وصام شهرا قبله عنه أجزأه لوجود السبب ويلغو التعيين والكفارات الحنث والقتل و (رمضان شهود جزء من الشهر) من ليل أو نهار على المختار كما في الخبازية واختار فخر الإسلام وغيره أنه الجزء الذي يمكن إنشاء الصوم فيه من كل يوم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں