بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی قضاء کرنا


سوال

اگر کسی شخص کا مسنون اعتکاف کسی وجہ سے پچھلی رمضان میں فاسد ہوگیا ہو، تو کیا وہ اس رمضان میں آخری عشرے میں ایک دن اپنے اعتکاف کی قضا کی نیت سے مسجد میں بیٹھ سکتا ہے؟ کیوں کہ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں کسی مسجد میں اعتکاف کی قضا کرنا بہت مشکل ہے، حالات کی وجہ سے محلے کی مساجد کی انتظامیہ رات کو مسجد میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دیتی اور پھر سحری افطاری کا بھی مسئلہ ہوتا ہے، جب کہ رمضان میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔

جواب

واضح رہے کہ اگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کامسنون اعتکاف ٹوٹ جائے تو صرف اُس ایک دن رات کی قضا واجب ہوتی ہے جس دن کا اعتکاف ٹوٹا ہے،  پھر ایک دن کی قضا چاہے رمضان میں کرے یا رمضان کے بعد روزے کے ساتھ کرے دونوں صورتیں صحیح ہیں۔

چناں چہ صورت ِمسئولہ میں  رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں ایک دن کے لیے  قضاء کی نیت سے اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: قدمنا ما يفيد اشتراط الصوم فيها بناء على أنها مقدرة بالعشر الأخير ومفاد التقدير أيضاً اللزوم بالشروع تأمل، ثم رأيت المحقق ابن الهمام قال: ومقتضى النظر لو شرع في المسنون أعني العشر الأواخر بنيته ثم أفسده أن يجب قضاؤه تخريجاً على قول أبي يوسف في الشروع في نفل الصلاة تناوباً أربعاً لا على قولهما اهـ أي يلزمه قضاء العشر كله لو أفسد بعضه كما يلزمه قضاء أربع لو شرع في نفل ثم أفسد الشفع الأول عند أبي يوسف، لكن صحح في الخلاصة أنه لايقضي إلا ركعتين، كقولهما، نعم اختار في شرح المنية قضاء الأربع اتفاقاً في الراتبة كالأربع قبل الظهر والجمعة وهو اختيار الفضلي وصححه في النصاب، وتقدم تمامه في النوافل، وظاهر الرواية خلافه وعلى كل فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع، وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبي يوسف، أما على قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه، وإنما قلنا أي باقيه بناء على أن الشروع ملزم كالنذر وهو لو نذر العشر يلزمه كله متتابعاً، ولو أفسد بعضه قضى باقيه على ما مر في نذر صوم شهر معين.
والحاصل أن الوجه يقتضي لزوم كل يوم شرع فيه عندهما بناء على لزوم صومه بخلاف الباقي؛ لأن كل يوم بمنزلة شفع من النافلة الرباعية وإن كان المسنون هو اعتكاف العشر بتمامه تأمل". 

(باب الاعتکاف،ج:2،ص:444،ط:سعید)

فتاوی تا تارخانیہ میں ہے:

"و لو شرع فيه ثم قطع لايلزمه القضاء في رواية الأصل، و في واية الحسن : يلزمه، و في الظهيرية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى : أنه يلزمه يومًا".

(کتاب الصوم،فصل: الاعتکاف،ج:2،ص:414،ط:ادارة القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں