حدیث کی تحقیق مطلوب ہے:
رمضان المبارک میں ایک نیک عمل کا ثواب ۷۰ گنا بڑھا دیا جاتا ہے؟
رمضان میں اعمال پر ثواب میں اضافہ متعدد روایات سے سمجھ میں آتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے بخاری شریف میں روایت ہے :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإن عمرة في رمضان حجة»
(صحيح البخاري، الإمام البخاري، أبواب العمرة، باب عمرة في رمضان، ط. السلطانية، رقم الحديث: ١٧٨٢، ٣/٣)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے"۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ایک ایسا عظیم الشان مہینہ ہے، کہ اس میں عمرہ جو ایک نفلی عمل ہےاس کا اجر بڑھا کر ایک فرض عمل یعنی حج کے برابر کر دیا جاتا ہے۔
اور سوال میں آپ نے جس حدیث سے متعلق دریافت کیا ہے، یہ حدیث "صحیح ابن خزیمہ " میں موجود ہے، اس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ:خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللَّهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ». قَالُوا: «لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ». فَقَالَ: «يُعْطِي اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ، وَاسْتَكْثِرُوا فِيهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُونَ بِهِ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أَشْبَعَ فِيهِ صَائِمًا، سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ».
(صحيح ابن خزيمة، جماع أباب فضائل شهر رمضان وصيامه، باب فضائل شهر رمضان إن صحَّ الخبر، ط. دار الميمان، الطبعة الأولى: ٢٠٠٩، تحقيق: د. ماهر الفحل، الرقم: ١٨٨٧، ٣/٣٤١)
ترجمہ: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخر تاریخ میں ہم لوگںوں کو وعظ فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے۔اس میں ایک رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالی نے اس کےروزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے، جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے، ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا، اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہےاور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غمنحواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائےاس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور روزہ دار کے ثواب کی ما نند اس کو ثواب ہو گا، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے، تو آپ نے فرمایا کہ : یہ ثواب تو اللہ شانہ ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے، یا ایک گھونٹ پانی پلا دے یا ایک گھونٹ لسی پلا دے، اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے، اور درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے، جو شخص اس مہینہ میں ہلکا کر دے اپنے غلام کے بوجھ کو، حق تعالی شانہ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں، اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو۔ جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کار نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرووہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو، جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلا ئے حق تعالی میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔
اس حدیث کے جملہ " جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے" سے سمجھ آتا ہے کے رمضان میں فرائض کا ثواب ستر گنا بڑھ کر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کر کے فرماتے ہیں:
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي (الشُّعَبِ) مِنْ طُرُقٍ: عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُجْرٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ. وَمِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكْرٍ السَّهْمِيِّ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِ الْغَفَّارِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ. وَالأَوَّلُ أَتَمُّ وَمَدَارُهُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَأَمَّا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ فَضَعِيفٌ جِدًّا، وَأَمَّا إِيَاسُ بْنُ عَبْدِ الْغَفَّارِ فَمَا عَرَفْتُهُ.
(إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة، ابن حجر العسقلاني،مسند سلمان الفارسي ط. مجمع الملك فهد، رقم الحديث: ٥٩٤١، ٥/٥٦٠)
محدثین کو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے، لیکن حدیث کی متابعت «امالي المحاملي» میں ہے:
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ ثنا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَوَابٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجُدْعَانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرَ يَوْمٍ فِي شَعْبَانَ... الحديث.
(أمالي المحاملي رواية ابن يحيى البيِّع، مجلس آخر آملاء، ط. دار ابن القيم ولمكتبة الإسلامية، الطبعة الأولى: ١٤١٢، تحقيق: إبراهيم إبراهيم القيسي، رقم الحديث: ٢٩٣، ص: ٢٨٦)
يه سند عبد العزیز بن عبد اللہ كي وجہ سے ضعیف ہے، مگر متابع بن سکتی ہے۔
اس حدیث کے اکثر مضامین کی تایید دیگر روایات سے ہوتی ہے، لہذا محدثین کے اصولوں کے مطابق فضائل کے باب میں اس حدیث کو ذکر کرنا درست ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503100822
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن