ایک لڑکی کا نکاح ہوا لیکن رخصتی سے پہلے ہی اس کے ناجائز حمل رہ گیا ،جب شوہر کو معلوم ہوا تو اس نے طلاق دے دی،سوال یہ ہے کہ اس پر عدت واجب ہوگی یا نہیں ؟ اور عدت کی مدت کتنی ہوگی ؟
اگر نکاح کے بعد رخصتی /خلوتِ صحیحہ ( لڑکا اور لڑکی ایسی تنہائی میں ملیں کہ دونوں کے درمیان کوئی تیسرا شخص نہ ہو اور ہم بستری کرنے سے کوئی شرعی ، طبعی یا حسی مانع نہ ہو ) سے پہلے طلاق ہوجائے تو ایسی صورت میں آدھا مہر ادا کرنا لازم ہے اور لڑکی پر کوئی عدت بھی نہیں ہوتی ہے ، اورخلوتِ صحیحہ ہونے کی صورت میں پورا مہر ادا کرنا ہوگا اور پوری عدت (تین ماہواریاں ) بھی گزارنی ہوگی ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا تجب العدة على الزانية وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما اللّه تعالى كذا في شرح الطحاوي."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج: ١، ص: ٥٢٦، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"ولا عدة على الزانية حاملا كانت أو غير حامل؛ لأن الزنا لا يتعلق به ثبوت النسب".
(كتاب الطلاق، فصل في توابع الطلاق،ج: ٣، ص: ١٩٢، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102257
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن