بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ریشمی کپڑا بچوں کو پہنانا


سوال

ریشمی کپڑا بچوں کو پہنانا کیسا ہے؟

جواب

خالص ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے، لیکن عورتوں  اور بچیوں کے لیے ریشم  کا استعمال جائز ہے؛ ایک حدیث میں آتا ہےکہ رسول اللہ ﷺ ایک دن اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے ایک دست مبارک میں ریشم اور دوسرے میں سونا تھا،   آپ ﷺ نے فرمایا:یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہیں۔

اور والدین کے لیے  چھوٹے بچوں (لڑکوں) کو  ریشمی کپڑے پہنانے سے بھی اجتناب ضروری ہے۔

واضح رہے کہ ہر ایسا کپڑا جس کا تانا بانا دونوں ریشم کے ہوں یا بانا ریشم کا ہو یا تانا بانا دونوں میں ریشم شامل ہو اور مجموعی طور پر ریشم غالب ہو وہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، اس کے علاوہ کپڑا یا مصنوعی ریشم کا استعمال  جائز ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 130):

"(وأما) .الذي ثبت حرمته في حق الرجال دون النساء فثلاثة أنواع منها لبس الحرير المصمت من الديباج والقز لما روي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج وبإحدى يديه حرير وبالأخرى ذهب، فقال: هذان حرامان على ذكور أمتي حل لإناثها». وروي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى سيدنا عمر - رضي الله تعالى عنه - حلة فقال: يا رسول الله! كسوتني حلة وقد قلت في حلة عطارد إنما يلبسه من لا خلاق له في الآخرة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لم أكسكها لتلبسها، وفي رواية: إنما أعطيتك لتكسو بعض نسائك»".

الاختيار لتعليل المختارمیں ہے:

’’لا بأس بلبس ماسداه إبريسم و لحمته قطن أو خز‘‘. (ص: ٤٩)

تنویر الأبصار مع الدر المختارمیں ہے:

’’و يحل ( لبس ما سداه ابريسم و لحمته غيره) ككتان و قطن و خز؛ لأن الثوب إنما يصير ثوباً بالنسج، و النسج باللحمة، فكانت هي المعتبرة دون السدي‘‘.

و في الشامية: ’’( قوله: و لحمته غيره) سواء كان مغلوباً أو غالباً أو مساوياً للحرير، و قيل: لا بأس إلا إذا غلبت اللحمة علي الحرير، و الصحيح الأول‘‘. ( شامي، كتاب الحظر و الإياحة، ٦/ ٣٥٦، ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں