بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رائج کرنسیوں میں قرض کے لین دین کا اصول


سوال

میں نے 2015 میں کسی سے 50ہزار کا قرض مانگا، وہ سعودیہ میں مقیم تھا، انہوں نے ریال پاکستانی روپے میں تبدیل کرکے مجھے بھیجے، جو اس وقت 1900 ریال بنتے تھے، اب بھی وہ آدمی سعودی  میں ہے، تو اب میں انہیں 1900ریال واپس کروں گایا50 ہزار روپے؟

جواب

واضح رہے کہ قرض کا حکم یہ ہے کہ جس کرنسی میں قرض خواہ قرض وصول کرے، قرض خواہ پر اسی کرنسی سے قرض ادا کرنا ضروری ہے، ورنہ دوسری کرنسی سے قرض ادا کرتے وقت اُس کرنسی کی مارکیٹ میں جوقیمت بنتی ہو،وہ قیمت قرض دہندہ کو واپس کرنا لازم ہے؛صورتِ مسئولہ میں چوں کہ قرض دہندہ نے خود ریال پاکستانی روپوں میں تبدیل کرکے سائل کو بھیجے ہیں، اور سائل نےقرض دہندہ کی طرف سے پاکستانی 50 ہزار روپے وصول کیے ہیں، اب سائل  50 ہزار روپے یا مارکیٹ میں 50 ہزار روپے کے جتنے ریال بنتے ہوں، اُتنے ریال قرض دہندہ کو واپس کرنے کا پابندہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو استقرض فلوسا نافقة، وقبضهاولم تكسد، ولكنها رخصت أو غلت فعليه رد مثل ما قبض بلا خلاف."

(كتاب البيوع،فصل واماحكم البيع،5/242،ط سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

"المقبوض بحكم القرض مضمون بالمثل من غير زيادة ولا نقصان."

(كتاب البيع، ‌‌الفصل الثالث والعشرون: في القروض، ١٢٤/٧، ط:دار الكتب العلمية)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"(‌سئل) ‌في ‌رجل ‌استقرض ‌من ‌آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟

(الجواب) : نعم ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمدا من مجمع الفتاوى."

(باب القرض، ٢٧٩/١، ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں