بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رحمن اور رحیم میں فرق


سوال

اللہ تعالی کی دو صفات " الرحمن " اور " الرحیم " میں کیا فرق ہے؟

جواب

اللہ تبارک وتعالیٰ کے صفاتی نام " رحمٰن " اور " رحیم " سے متعلق حافظ ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی اپنی تالیف " تفسیر ابن کثیر " میں فرماتے ہیں:

"اسمان مشتقان من الرحمة على وجه المبالغة، ورحمن أشد مبالغة من رحيم ، وفي كلام ابن جرير مايفهم حكاية الاتفاق على هذا، وفي تفسير بعض السلف ما يدل على ذلك، كما تقدم في الأثر، عن عيسى - عليه السلام - أنه قال : والرحمٰن رحمٰن الدنيا والآخرة، والرحيم رحيم الآخرة ... ".

( تفسير ابن كثير: سورة الفاتحة، آية: 1، ط: دار ابن حزم، بيروت لبنان )

ترجمہ :   "یہ دونوں نام (رحمٰن اور رحیم) "رحمت"  سے مشتق ہیں، اور ان میں  مبالغہ  کا معنٰی ہے ، پھر "رحمٰن" میں "رحیم"  سے زیادہ مبالغہ ہے ۔  علامہ ابن جریر  رحمہ اللہ نے اس بارے میں جو بحث کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ اس پر اہلِ علم کا اتفاق نقل کررہے ہیں، اور سلف کی بعض تفاسیر میں بھی ایسی تعبیرات ہیں جو اس (اتفاق) پر دلالت کرتی ہیں، جیساکہ عیسیٰ علیہ السلام کے قول کے حوالہ سے پہلے گزرچکاہے کہ انہوں نے فرمایا:  " رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے  ... " ۔ 

نیز معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں :

" الرحمٰن الرحیم: یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ، "رحمٰن"کے معنی  " عام الرحمة "کے اور  "رحیم"کے معنی " تام الرحمة"کے ہیں ،"عام الرحمة"سے مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم اور ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ ہوگا سب پر حاوی اور شامل ہو ، اور  "تام الرحمة"کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رحمت کامل و مکمل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ  "رحمٰن"اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ، کسی مخلوق کو "رحمٰن"کہنا جائز نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے  ...  بخلاف لفظِ "رحیم"کے کہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا پایا جانامخلوق میں نا ممکن ہو؛ کیوں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی شخص سے پوری پوری رحمت کا معاملہ کرے۔"

(معارف القرآن از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ : (1/76) مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207200030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں