بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

راہن کا قرض اجازت کے بغیر ادا کرنے اور رہن شدہ چیز کی ملکیت کا حکم


سوال

سن 2000ء میں میری ساس نے مجھے سونے کا لاکٹ دیا اور کہا کہ اسے دے کر مجھے سات ہزار روپے لادو ، میں نے وہ لاکٹ اپنے دوست (زرگر) کو دیا ،اس نے لاکٹ کے بدلے مجھے سات ہزار روپے دیئےاور وہ رقم میں نے ساس کو دی ، چند عرصہ بعد میرےدوست نے کہا کہ رقم دے کر لاکٹ لے لو ورنہ میری بیوی لے لے گی، تو میں نے سات ہزار کی رقم دوست کو دے کر لاکٹ واپس لے لیا ، میری ساس نے وہ رقم ملنے کے بعد کافی سال تک نہیں لوٹائی اور نہ اس لاکٹ کا مطالبہ کیا ،مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے میری بیوی سے پوچھا  کہ وہ لاکٹ تمہارے پاس ہے ؟اس کے علاوہ کبھی کچھ نہیں پوچھا،اس کے بعد ساس کا انتقال ہوچکا ہے ۔اب پوچھنایہ ہے کہ لاکٹ کی ملکیت کس کی شمار کی جائے گی ؟مرحومہ ساس کی یا میری ملکیت تصور کی جائے گی ؟

تنقیح: ساس نے سونا بطور امانت اور اعتماد  کے دیا تھا بیچنے کےلئے نہیں دیا تھا، یعنی سونا بطور ضمانت و رہن رکھواکر قرض مل جائے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی ساس  نے سائل کو سونا بطور ضمانت دے کر قرض کے حصول کے لیے وکیل بنایا تھا،اور سائل نے وہ سونا کسی کے پاس رکھواکر ساس کے لیے سات ہزار روپے قرض لیا،تو یہ سونا رکھواکر قرض لینے کے  معاملہ کو فقہی اصطلاح میں ” رہن“ کہاجاتاہے،سونا رہن رکھوانے سے وہ سونا سائل کی ساس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوا تھا،البتہ جب قرض دینے والے نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا تو سائل کوچاہیے تھا کہ اپنی ساس سے وہ قرض کی رقم واپس لے کر ،قرض لوٹاکر سونا واپس ساس کو دے دیتے ۔جب سائل نے اپنی جانب سے قرض کی رقم واپس کرکے رہن رکھا ہوا سونا واپس لے لیا ،توساس کے ترکہ سے سات ہزار لے کر سونا واپس کر دے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيره شرعا فجعل الشيء محبوسا بحق يمكن استيفاؤه من الرهن كالديون حتى لا يصح الرهن إلا بدين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فأما بدين معدوم فلا يصح؛ إذ حكمه ثبوت يد الاستيفاء، والاستيفاء يتلو الوجوب كذا في الكافي."

(کتاب الرھن، الباب الأول، الفصل الأول، ج:5 ، ص:431، ط: دار الفکر)

وفیہ أیضاً :

"رجل رهن من آخر جارية تساوي ألف درهم بألف درهم فجاء المرتهن يطلب دينه فأبى الراهن ذلك حتى يحضر المرتهن الجارية، والراهن والمرتهن في مصرهما أنه يؤمر المرتهن بإحضار الجارية أولا."

(کتاب الرھن، الباب السابع، ج:5، ص:460، ط: دار الفکر)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(كتاب المداينات: ج:2 ،ص:226، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100838

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں