میری شادی کوتیرہ سال ہوگئےہیں،میری پانچ بیٹیاں ہیں،بڑی بیٹی 2012ءمیں پیداہوئی،دوسری بیٹی2014ءمیں ہوئی،تیسری بیٹی2017ءمیں ہوئی،چوتھی بیٹی2020ءمیں ہوئی،اورپانچویں بیٹی 2022ءمیں ہوئی،اس کےبعدمیں نے وقفےکےلئے چھلہ لگایا،کیوں میری جسم میں کمزوری ہوگئی ہے،اورپاؤں میں بھی درد رہتاہے۔
کیامیں وقفہ کرسکتی ہوں؟
اوراس کےلیے چھلہ لگاسکتی ہوں؟
اورکسی نےکہاہےکہ اس کےلگانےسے نمازنہیں ہوتی ،کیایہ سچ ہے؟
واضح رہے کہ شریعت اسلامی میں ضبط اولادیعنی وہ طریقے اختیارکرناجس سے ہمیشہ کےلیے اولادکی برکت سے محرومی لازمی آتی ہو یاتنگی معاش کےخوف سے ہوناجائزاورحرام ہے،اوراگرتنگی معاش کےخوف سے نہ ہواورنہ ہی ہمیشہ کےلئےصلاحیت تولیدبن کی جائےبلکہ کسی عذر، بیماری، کم زوری یا دوسرے بچے کو خطرہ جیسی صورتوں میں بضرورت ایسی مانعِ حمل تدبیروں کو اپنانے کی گنجائش ہے جو وقتی ہوں،اورنامحرم کےسامنےسترکھولنےکی نوبت نہ آئے، اور جب چاہیں اُنہیں ترک کرکے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا ہو، ایسی تدبیریں عزل کے حکم میں ہیں، باقی بچہ دانی میں جال،چھلہ ،رِنگ وغیرہ لگاکرمخصوص مدت تک بچوں میں وقفہ کرنے کےبارےمیں شرعی حکم یہ ہے کہ چوں کہ اس میں غیرکےسامنے سترکھولنےکی نوبت آتی ہے،اس لئے اگر یہ عمل کسی حقیقی عذر (مثلًا بیماری، کم زوری وغیرہ جیسی وجوہات) کی وجہ سےمجبوری میں کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، ورنہ ناجائز ہے۔
اورجہاں تک نمازکی بات ہے توشرعی طورپرنمازاس وقت نہیں ہوتی جب کوئی عذرمثلاً:آدمی بےوضوہو،عورت حیض یانفاس کی حالت میں ہو،یادیگرکوئی موانع ہوں،صرف چھلہ ،رنگ وغیرہ لگانےسے نمازہوجاتی ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني سعيد بن المسيب، أنه سمع سعد بن أبي وقاص، يقول: لقد رد ذلك، يعني النبي صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون، ولو أجاز له التبتل لاختصينا."
”ترجمہ : حضرت سعد بن وقاصؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کو منع فرمادیا تھا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خصی ہونے کی اجازت مرحمت فرماتے تو ہم خصی ہوجاتے۔“
(كتاب النكاح، 8 - باب: ما يكره من التبتل والخصاء، ج:5، ص:1952، ط:دار ابن كثير)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعن سعد بن أبي وقاص رضي الله تعالى عنه، قال: رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل) أي: الانقطاع عن النساء، وكان ذلك من شريعة النصارى، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عنه أمته؛ ليكثر النسل ويدوم الجهاد. قال الراوي: (ولو أذن له) أي: لعثمان في ذلك (لاختصينا) أي: لجعل كل منا نفسه خصيا كيلايحتاج إلى النساء. قال الطيبي:كان من حق الظاهر أن يقال: لو أذن لتبتلنا،فعدل إلى قوله: اختصينا إرادة للمبالغة أي: لو أذن لبالغنا في التبتل حتى بالاختصاء، ولم يرد به حقيقة لأنه غير جائز. قال النووي - رحمه الله -: كان ذلك ظنا منهم جواز الاختصاء، ولم يكن هذا الظن موافقًا فإن الاختصاء في الآدمي حرام صغيرًا أو كبيرًا، وكذا يحرم خصاء كل حيوان لايؤكل، وأما المأكول فيجوز في صغره ويحرم في كبره (متفق عليه)."
عمدۃ القاری میں ہے:
"فإن الاختصاء في الآدمي حرام".
(كتاب فضائل القرآن، 8 - باب ما يكره من التبتل والخصاء، ج:20، ص:72، ط:دار الفكر)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلك الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ:﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾."
(كتاب النكاح، (24) باب جواز الغيلة وهي وطء المرضع، وكراهة العزل، ج:2، ص:1066، ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)
مرقاۃ الفاتیح میں ہے:
"قیل: ذلك لایدل علی حرمة العزل، بل علی کراهته".
(کتاب النکاح، باب المباشرة، الفصل الأول،ج:6، ص:238، ط:دارالفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لايبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم."
(كتاب النكاح، باب نكاح الرقيق، مطلب في حكم العزل، ج:3، ص:175، ط:سعيد)
وفيه ايضاً:
"أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال: أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء."
(كتاب النكاح، باب نكاح الرقيق، مطلب في حكم العزل، ج:3، ص:176، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102554
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن