بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

راہ چلتے ہوئے سڑک سے ملنے والی سونے کی انگوٹھی کا حکم


سوال

کسی کو راستے میں سڑک پر سے سونے کی ایک انگوٹھی ملے تو اس کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں راہ چلتے ہوئے سڑک سے ملی ہوئی مذکورہ انگوٹھی کا حکم یہ ہے کہ  اگرانگوٹھی اٹھانے والے کو اس کا مالک معلوم ہےتو اس کو واپس کی جائے، تاہم اگرمالک  معلوم نہیں ہے، تو حتی الوسع  اس انگوٹھی کی مناسب مدت(جس وقت تک غالب گمان ہو کہ وہ شخص اپنی گمشدہ چیز کی تلاش میں ہوگا )تک تشہیر کی جائے، اورتشہیر کرنے کے باوجود بھی اگر مالک کا پتانہ چلے تواب انگوٹھی اٹھانے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو اپنے پاس محفوظ رکھے تاآں کہ اس کا مالک مل جائے، یاپھراس انگوٹھی کو مالک کی طرف سے صدقہ کردیا جائے، نیز صدقہ کرنے کے بعداگر  مالک مل جائے  تو اسے بتایا جائے کہ انگوٹھی اس کی طرف سے صدقہ کردی گئی ہے،اگر وہ اس کو قبول کرلے تو صدقہ اس کی طرف سے ہوجائے گا،اور اگر وہ اپنی انگوٹھی کا مطالبہ کرے تو اس انگوٹھی   کی مالیت اسے  دی جائے ، اس صورت میں  صدقہ کا ثواب صدقہ کرنے والے کو ملے گا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"[كتاب اللقطة] هي مال يوجد في الطريق ولا يعرف له مالك بعينه، كذا في الكافي التقاط اللقطة.

وإذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."

(کتاب اللقطة، ج: 2، ص: 289، 290، ط: دارالفکر بیروت)

فقط والله تعالى اعلم 


فتوی نمبر : 144501102444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں