بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہ کرنے کا حکم


سوال

ترکِ رفع  یدین   پر فتوی بھیجیں۔

جواب

’’رفع یدین‘‘ دو لفظوں کا مجموعہ ہے ، ’’رفع‘‘  کا مطلب ہے اٹھانا اور ’’ یدین‘‘ کا مطلب ہے دونوں ہاتھ، چنانچہ ’’رفع یدین ‘‘ کا مطلب ہوا’’دونوں ہاتھوں کو اٹھانا‘‘ ، رفع یدین سے مراد نماز کی حالت میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا ہے، وتر اور عیدین کی نماز کے علاوہ عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے، اور یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے؛ اسی وجہ سے مجتہدینِ امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے ، اور آخری عمل پہلے کیلئے ناسخ ہوتا ہے ،پہلے والا عمل منسوخ قرار پاتا ہے ،لہذا  احناف کے نزدیک  ترکِ رفع یدین ہی  سنت ہے۔

تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہ کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:

1.  حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔

2. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

3. حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (کیوں کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ مدینہ کے رہائشی نہ تھے، بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد چند دن مدینہ منورہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات سیکھ کر تشریف لے گئے تھے، جب کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے، آپ ﷺ کے خادمِ خاص بھی تھے، اور لسانِ نبوت سے علم وفضل کی سند بھی حاصل کرچکے تھے، اور آپ ﷺ نے امت کو ان کی پیروی کا حکم بھی دیا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان سے علم حاصل کرتے تھے اور فتویٰ لیتے تھے، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اور اصحابِ فضل وعلم صحابہ کرام نے ان کے کمالِ علم کی تعریف فرمائی۔

4.  حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔

5.  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔

6. حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمہیں حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔

7. حضرت علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔ (معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما جو باتفاقِ امت سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں، اور دنیا و آخرت میں آپ ﷺ کے مصاحب ہیں، صحابہ کرام میں سب سے اَعلم ہیں انہوں نے حضور ﷺ کی نماز سے سنت اسی کو سمجھا کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہ کیا جائے۔ آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بھی بحوالہ آرہاہے کہ وہ بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہیں کرتے تھے، گویا خلفاءِ راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کا عمل ترکِ رفع یدین ہے، اور آپ ﷺ نے ہمیں خلفاءِ راشدین کا طریقہ اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے، اگر حضور ﷺ سے رفعِ یدین کے بارے میں صریح روایت نہ بھی منقول ہوتی اور خلفاءِ راشدین کا عمل اسی طرح ہوتا تو بھی یہ ترکِ رفع کے سنت ہونے کی کافی دلیل تھی، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے حوالے سے کوئی بات بلادلیل نہ کہتے تھے نہ عمل کرتے تھے، نیز یہ کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ خلیفہ بننے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف عمل کریں، تو اس سے معلو م ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ترک رفع تھا۔

8. امام نخعیؒ، حضرت اسود بن یزیدؒ سے نقل فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم اور عامر شعبی کو بھی ایسا ہی کیا کرتے دیکھا۔

9. عاصم بن کلیب اپنے والد کلب جرمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت علی رضی  اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرض نماز میں صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے، اور اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔

10. حضرت امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔

مسند أبی  يعلی للموصلی میں ہے:

"عن البراء قال: رأيت ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌رفع ‌يديه ‌حين ‌استقبل ‌الصلاة ‌حتى ‌رأيت ‌إبهاميه ‌قريبا ‌من ‌أذنيه، ‌ثم ‌لم ‌يرفعهما."

(مسند البراء بن عازب، رقم الحديث:1692، ج:3، ص:249 ، ط:دار المأمون دمشق)

شرح معاني الآثار للطحاوی میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه ‌كان ‌يرفع ‌يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع هل مع ذلك رفع أم لا، رقم الحدیث:1349، ج:1، ص:224، ط:عالم الكتب)

وفيه أيضا:

‌"عن ‌المغيرة، ‌قال: ‌قلت ‌لإبراهيم: ‌حديث ‌وائل  أنه ‌رأى ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم، ‌يرفع ‌يديه ‌إذا ‌افتتح ‌الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع؟ فقال: إن كان وائل رآه مرة يفعل ذلك، فقد رآه عبد الله خمسين مرة، لا يفعل ذلك."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع هل مع ذلك رفع أم لا، رقم الحدیث:1351، ج:1، ص:224، ط:عالم الكتب)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن ‌جابر بن سمرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها ‌أذناب ‌خيل ‌شمس! ‌اسكنوا ‌في ‌الصلاة!."

(‌‌كتاب الصلاة، باب الأمر بالسكون في الصلاة، ج:2، ص:29 ، ط:دار الطباعة العامرة تركيا)

سنن  ترمذی میں ہے :

"عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، ‌فلم ‌يرفع ‌يديه ‌إلا ‌في ‌أول ‌مرة."

(‌‌أبواب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم الحديث:257، ج:2، ص:40، ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

سنن  نسائی   میں ہے:

"عن ‌علقمة، عن ‌عبد الله أنه قال: ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، ‌فلم ‌يرفع ‌يديه ‌إلا ‌مرة ‌واحدة."

(كتاب التطبيق، باب رفع اليدين، الرخصة في ترك ذلك، ج:2، ص:195، ط:المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)

سنن كبریٰ  للبيہقی  میں ہے:

"عن ‌علقمة، ‌عن ‌عبد ‌الله ‌بن ‌مسعود ‌قال: ‌صليت ‌خلف ‌النبي - ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم - ‌وأبى ‌بكر ‌وعمر، ‌فلم ‌يرفعوا ‌أيديهم ‌إلا ‌عند ‌افتتاح ‌الصلاة."

(‌‌كتاب الصلاة، باب من لم يذكر الرفع إلا عند الافتتاح، ج:3، ص:496، ط:مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية القاهرة)

شرح معاني الآثار للطحاوی میں ہے :

"عن إبراهيم، عن الأسود، قال: رأيت عمر بن الخطاب رضي الله عنه ‌يرفع ‌يديه ‌في ‌أول ‌تكبيرة، ‌ثم ‌لا ‌يعود، قال: ورأيت إبراهيم، والشعبي يفعلان ذلك."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع هل مع ذلك رفع أم لا، رقم الحدیث:1364، ج:1، ص:227، ط:عالم الكتب)

موطأ مالك بروایۃ  محمد بن الحسن میں ہے:

‌"عن ‌عاصم ‌بن ‌كليب ‌الجرمي، ‌عن ‌أبيه، ‌قال: ‌رأيت ‌علي ‌بن ‌أبي ‌طالب رفع ‌يديه ‌في ‌التكبيرة ‌الأولى ‌من ‌الصلاة ‌المكتوبة، ‌ولم ‌يرفعهما ‌فيما ‌سوى ‌ذلك."

(‌‌‌‌أبواب الصلاة، باب:افتتاح الصلاة، رقم الحديث:105، ص:58، ط:المكتبة العلمية)

شرح معاني الآثار للطحاوی میں ہے :

"عن مجاهد، قال: صليت خلف ابن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة فهذا ابن عمر قد رأى النبي صلى الله عليه وسلم يرفع، ثم قد ترك هو الرفع بعد النبي صلى الله عليه وسلم فلا يكون ذلك إلا ‌وقد ‌ثبت ‌عنده ‌نسخ ما قد رأى النبي صلى الله عليه وسلم فعله وقامت الحجة عليه بذلك."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع هل مع ذلك رفع أم لا، رقم الحدیث:1357، ج:1، ص:225، ط:عالم الكتب)

وفيه أيضا:

"عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كبر لافتتاح الصلاة، رفع يديه حتى يكون إبهاماه قريبا من شحمتي أذنيه، ثم لا يعود."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع هل مع ذلك رفع أم لا، رقم الحدیث:1347، ج:1، ص:224، ط:عالم الكتب)

وفيه أيضا:

"عن الأسود ، قال: رأيت عمر بن الخطاب رضي الله عنه يرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود ... قال أبو جعفر: فهذا عمر رضي الله عنه لم يكن يرفع يديه أيضا إلا في التكبيرة الأولى في هذا الحديث، وهو حديث صحيح .... وفعل عمر رضي الله عنه هذا وترك أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إياه على ذلك ، دليل صحيح أن ذلك هو الحق الذي لا ينبغي لأحد خلافه."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع هل مع ذلك رفع أم لا، رقم الحدیث:1364، ج:1، ص:227، ط:عالم الكتب)

إرشاد الفحول للشوكاني میں ہے :

"القسم الثالث عشر: أن يكون القول خاصا بالأمة ولا تعارض في حقه صلى الله عليه وسلم، وأما في حق الأمة فالمتأخر ناسخ لعدم الدليل على التأسي."

"القسم الرابع عشر: أن يكون القول عاما له وللأمة مع قيام الدليل على التأسي دون التكرار، ففي حق الأمة المتأخر ناسخ. وأما في حقه صلى الله عليه وسلم فإن تقدم الفعل فلا تعارض، وإن تقدم القول فالفعل ناسخ."

(المقصد الثاني، الفصل السادس، ج:1، ص:116، ط:دار الكتاب العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں