بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رفع یدین کا حکم


سوال

رفعِ یدین کرنا درست ہے یا نہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رفعِ یدین کیا، اس کی علت اور وجہ کیا تھی؟

 

جواب

واضح رہے کہ رفعِ یدین ابتدا  میں نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت اور دونوں سجدوں کے درمیان میں مشروع تھا اوریہ سب صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پھرسجدوں کے درمیان اوررکوع میں جانے اور رکوع سے اُٹھنے کے مواقع میں منسوخ ہوگیا۔ اور یہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قولاً اورعملاً ثابت ہے۔ خاص کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفروحضر کے خادم، خلفائے راشدین کے بعد اعلیٰ مقام رکھنے والے اورصحابہ کے درمیان فقاہت میں ممتاز حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء میں رفعِ یدین فرماتے تھے اور اخیرکے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین ترک فرما دیا تھا۔

رفعِ یدین کامسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفعِ یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے مجتہدینِ اُمت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفعِ یدین والی روایات کوراجح قرار دیاہے، کئی اکابرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کامعمول ترکِ رفعِ یدین کا تھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے۔ احناف کے نزدیک  ترکِ رفعِ یدین ہی  سنت ہے۔

چنانچہ حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی نماز کی کیفیت ذکر فرمائی اور اس میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفعِ یدین  کرنے کا ذکر فرمایا، جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث سے واضح ہے۔

بعض احادیث میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات (مثلاً رکوع، سجدہ وغیرہ کی تکبیرات) کہتے وقت بھی رفعِ یدین کا ذکر ملتا ہے، لیکن اصولِ حدیث اور اصولِ استدلال کی روشنی میں وہ روایات مرجوح ہیں؛ اس لیے وتر  اور عیدین کی نمازوں کے علاوہ نمازوں میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھانا سنت ہے۔

نمازِ وتر کی تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد دعائے قنوت سے پہلے کہی جانے والی تکبیر کے وقت اور عیدین کی نماز میں پہلی اور دوسری رکعت میں بھی تین تین زائد تکبیرات کہتے وقت رفعِ یدین ثابت ہے۔ 

ذیل میں ترکِ رفعِ یدین کے کچھ مستدلات ملاحظہ ہوں:

’’حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا الليث، عن خالد، عن سعيد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء، و حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، ويزيد بن محمد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء، أنه كان جالساً مع نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرنا صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو حميد الساعدي: أنا كنت أحفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، «رأيته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه، و إذا ركع أمكن يديه من ركبتيه، ثم هصر ظهره، فإذا رفع رأسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه، فإذا سجد وضع يديه غير مفترش و لا قابضهما، و استقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة، فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى، و نصب اليمنى، وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى، و نصب الأخرى و قعد على مقعدته».‘‘

(صحيح البخاري، 1/ 165)

’’و منها: رفع اليدين عند تكبيرة الافتتاح، و الكلام فيه يقع في مواضع: في أصل الرفع، و في وقته، و في كيفيته، و في محله. أما أصل الرفع: فلما روي عن ابن عباس و ابن عمر -رضي الله عنهما - موقوفاً عليهما و مرفوعاً إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا ترفع الأيدي إلا في سبعة مواطن»، و ذكر من جملتها تكبيرة الافتتاح، و عن أبي حميد الساعدي - رضي الله عنه - أنه كان في عشرة رهط من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهم: ألا أحدثكم عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالوا: هات، فقال: رأيته إذا كبر عند فاتحة الصلاة رفع يديه، و على هذا إجماع السلف.و أما وقته: فوقت التكبير مقارناً له؛ لأنه سنة. التكبير شرع لإعلام الأصم الشروع في الصلاة، ولا يحصل هذا المقصود إلا بالقران. و أما كيفيته: فلم يذكر في ظاهر الرواية، و ذكر الطحاوي أنه يرفع يديه ناشراً أصابعه مستقبلاً بهما القبلة، فمنهم من قال: أراد بالنشر تفريج الأصابع، و ليس كذلك، بل أراد أن يرفعهما مفتوحتين لا مضمومتين حين تكون الأصابع نحو القبلة، و عن الفقيه أبي جعفر الهندواني: أنه لا يفرج كل التفريج ولا يضم كل الضم بل يتركهما على ما عليه الأصابع في العادة بين الضم و التفريج. و أما محله: فقد ذكر في ظاهر الرواية أنه يرفع يديه حذاء أذنيه، و فسره الحسن بن زياد في المجرد فقال: قال أبو حنيفة: يرفع حتى يحاذي بإبهاميه شحمة أذنيه، و كذلك في كل موضع ترفع فيه الأيدي عند التكبير، و قال الشافعي: يرفع حذو منكبيه، و قال مالك: حذاء رأسه، احتج الشافعي بما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة كبر و رفع يديه حذو منكبيه.

(و لنا) ما روى أبو يوسف في الأمالي بإسناده عن البراء بن عازب أنه قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة كبر و رفع يديه حذاء أذنيه»؛ و لأن هذا الرفع شرع لإعلام الأصم الشروع في الصلاة، و لهذا لم يرفع في تكبيرة هي علم للانتقال عندنا؛ لأن الأصم يرى الانتقال فلا حاجة إلى رفع اليدين، و هذا المقصود إنما يحصل إذا رفع يديه إلى أذنيه. و أما الحديث فالتوفيق عند تعارض الأخبار واجب، فما روي محمول على حالة العذر حين كانت عليهم الأكسية و البرانس في زمن الشتاء، فكان يتعذر عليهم الرفع إلى الأذنين، يدل عليه ما روى وائل بن حجر أنه قال: قدمت المدينة فوجدتهم يرفعون أيديهم إلى الآذان، ثم قدمت عليهم من القابل و عليهم الأكسية و البرانس من شدة البرد فوجدتهم يرفعون أيديهم إلى المناكب، أو نقول: المراد بما روينا رءوس الأصابع، وبما روي الأكف و الأرساغ عملاً بالدلائل بقدر الإمكان. و هذا حكم الرجل، فأما المرأة فلم يذكر حكمها في ظاهر الرواية. و روى الحسن عن أبي حنيفة أنها ترفع يديها حذاء أذنيها كالرجل سواء؛ لأن كفيها ليسا بعورة، و روى محمد بن مقاتل الرازي عن أصحابنا أنها ترفع يديها حذو منكبيها؛ لأن ذلك أستر لها، و بناء أمرهن على الستر، ألا ترى أن الرجل يعتدل في سجوده و يبسط ظهره في ركوعه، و المرأة تفعل كأستر ما يكون لها.‘‘

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 1/ 199)

’’عن البراء -رضی الله عنه- قال: رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریباً من أذنیه، ثم لم یرفعهما.‘‘

(مسند أبي یعلی الموصلي، دار الکتب العلمیة، بیروت، 2/ 153، رقم: 1488)

(أبو داؤد، الصلاة، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، النسخة الهندیة، 1/ 109، دار السلام، رقم: 749)

’’عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: صلیت خلف النبي صلى الله عليه وسلم و مع أبي بکر و عمر رضی الله عنهما فلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة.‘‘

(السنن الکبری للبیهقي، دارالکفر بیروت، 2/ 393، رقم: 2584)

’’عن علقمة قال: قال عبد الله [بن مسعود] رضي الله عنه: ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم؟ فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة. [قال:] و في الباب عن البراء بن عازب رضي الله عنه. قال أبو عيسى: حديث ابن مسعود رضي الله عنه حديث حسن.‘‘

(سنن الترمذي، 2/ 40)

ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا:  کیا میں تمہیں وہ نماز نہ پڑھاؤں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔‘‘

’’110 - قَالَ مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ.‘‘

اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں  روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیرِ اُولیٰ میں رفعِ یدین فرمایا کرتے تھے، اس کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہیں فرمایا کرتے تھے۔

’’عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، ثُمَّ لاَ يَعُودُ.‘‘

(مصنف ابن أبي شيبة - ترقيم عوامة، 1/ 236)

لہذا  حنفی مسلک میں متعدد روایاتِ  صحیحہ کی بنیاد پر رفعِ یدین کاترک ہی افضل ہے۔

’’عن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: خرج علینا رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال: ما لي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس، اسکنوا في الصلاة.‘‘

(صحیح مسلم، 1/ 181)

ترجمہ : ’’حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا: مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘

اس حدیث کو بھی علماء کرام نے ترکِ رفعِ یدین کے مستدل کے طور پر ذکر کیا ہے۔

باقی رہی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفعِ یدین کی علت کی تو واضح رہے کہ رفعِ یدین کی علتیں بعض حضرات نے مختلف بیان کی ہیں؛ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف انقیاد و رجوع کی وجہ سے کیا، یا يه کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کے لیے رفعِ یدین کیا کرتے تھے، یا یہ کہ دنیا اور دنیاوی امور   کو پسِ پشت ڈالنے کے لیے، وغیرہ، ليكن درحقيقت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا ہر قول و فعل وحی کی بنیاد پر هوتا تھا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا اور جو کچھ کر کے دکھایا اس کی بنیاد وحی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہی تھا، لہٰذا رفعِ یدین کی علت بھی یہی ہے کہ جس وقت اللہ کی طرف سے رفعِ یدین کا حکم ہوا اس وقت آپ نے رفعِ یدین کیا اور جس وقت ترکِ رفعِ یدین کا حکم ہوا اس وقت ترک کردیا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں