بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو قرض دے کر اسی رقم کو مضاربت میں لگانے کا حکم


سوال

میرا ذاتی طور پر ماربل کا جاری کاروبار ہے،میں نے کاروبار میں تقریباً 10 لاکھ روپے انویسٹ کیا ہے،میرے کچھ جاننے والے لوگ بے روزگار ہیں ،کام کاج میں میرا ہاتھ بٹاتے ہیں،کیا میں ان کو مضاربت کی صورت میں مالی فائدہ پہنچا سکتا ہوں ؟لیکن ان کے پاس رقم نہیں ہے،کیا یہ صورت جائز ہوگی کہ میں ان کو اپنے ہی سرمایہ 10 لاکھ روپے کے حصہ کرکے رقم بطور قرض حسنہ  مختص کردوں یا ان کے نام کردیتا ہوں ،یا ان کو حقیقتاً دے دیتا ہوں، پھر وہ لوگ واپس  مجھے یہ رقم مضاربت کے طور پر دے دیں،تاکہ میں یہ رقم کاروبار میں لگاؤں اور ان کو جائز نفع دوں،اور اسی طرح اور لوگوں کو بھی راغب کروں،تو کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو جائز صورت کی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنے جاننے والے ایسے لوگوں کے ساتھ خیرخواہی کرنا چاہتا ہے جن کے پاس کاروبار  کے لیے رقم نہیں ہے ،تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ وہ ان افراد کو  اپنی رقم قرض کے طور پر دیدے،پھر وہ لوگ مضاربت کے طور پر وہ رقم آپ کے کاروبار میں لگادیں یعنی یہ معاہدہ کریں کہ ان رقوم سے کاروبار کرنے سے جو نفع ہوگا اس کا اتنا حصہ ان کو اور اتنا حصہ آپ کو ملے گا،پھر نفع ہونے کی صورت  میں نفع کو اس معاہدہ کے مطابق تقسیم کیا جائے تو معاملہ درست ہوگارقم ان کو قرض کے طور پر دینے کے بعد پھر وہ افراد رقم بطورِ مضاربت کے لگادیں تو یہ صورت جائز ہے،بغیر حوالے کیے صرف ان کے نام کردینے سے مضاربت درست نہیں ہوگی،باقي آپ ان افراد كو اپني طرف سے تعاون كرنا چاهيں تو كرسكتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي. فلو قبض المضارب المال على هذا الشرط فربح أو وضع أو هلك المال بعد ما قبضه المضارب قبل أن يعمل به كان الربح للمضارب والوضيعة والهالك عليها كذا في المحيط."

(كتاب المضاربة،الباب الاول في تفسير الضاربة،285/4،ط:رشيدىة)

الاختيار لتعليل المختار ميں ہے:

"ولا تصح إلا أن يكون الربح بينهما مشاعا، ‌فإن ‌شرط ‌لأحدهما ‌دراهم ‌مسماة ‌فسدت، والربح لرب المال، وللمضارب أجر مثله، واشتراط الوضيعة على المضارب باطل، ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب."

(كتاب المضاربة،20/3،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها.قوله: في الربح) كما إذا شرط له نصف الربح أو ثلثه بأو الترديدية س (قوله فيه) كما لو شرط لأحدهما دراهم مسماة."

(كتاب المضاربة،شرائط المضاربة،648/5ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں