بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رب المال کا مضارب سے قرض لے کر اسی کو مضاربت پر مال دینا


سوال

زید نے بکر سے پانچ لاکھ روپے قرض حسنہ کے طور پر لیے، طے یہ ہوا کہ زید چھ ماہ بعد پانچ لاکھ روپے ہی واپس کرے گا۔ اس معاملے کے مکمل ہونے کے بعد زید نے بکر سے کہا کہ میں آپ کو پانچ لاکھ روپے بطورِ مضاربت دے رہا ہوں اس سے حاصل ہونے والے نفع میں میرا چالیس فیصد اور آپ کا ساٹھ فیصد ہوگا، اور بکر اس پر راضی ہے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟ قرض لیتے وقت مضاربت کا معاملہ زیرِ بحث نہیں تھا، البتہ زید کے ذہن میں تھا کہ بکر سے قرض لے کر اسی کو مضاربت پر دے دوں گا، اور چھ ماہ بعد مضاربت ختم کرکے اس کا قرض اسی کو واپس کردوں گا، اور نفع بھی حاصل کرلوں گا۔

جواب

 صورت مسئولہ میں زید نے جو بکر سے پانچ لاکھ روپے قرض لیے زید اس کا مالک بن گیا اور بکر کا حق ان نقود کے عین سے ختم ہوگیا اور بکر کا حق زید کے ذمہ واجب ہوگیا۔ پھر جب زید  بکر کو ہی مضاربت کے  طور پر پانچ لاکھ روپےدے گا تو  مضاربت کی شرائط پوری ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ شرعا جائز ہوجائے گا ۔یہ رقم بکر کے ہاتھ میں مضارب ہونے کی حیثیت سے امانت ہوگی اور نفع طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا اور نقصان ہونے کی صورت میں اول نفع سے پورا کیا جائے گا اور اگر نقصان نفع  سےز ائد ہوا  تو وہ راس المال سے پورا کیا جائےگا ۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(منها) أن يكون» رأس المال دراهم أو دنانير.....(ومنها) أن يكون رأس المال معلوما عند العقد حتى لا يقعان في المنازعة في الثاني والعلم به إما بالتسمية أو بالإشارة .....(ومنها) أن يكون رأس المال عينا لا دينا فالمضاربة بالديون لا تجوز۔"

(کتاب المضاربۃ باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۸۵، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في فتاوى رشيد الدين لو قال لمديونه ادفع الدين الذي لي عليك إلى فلان ليشتري فلان كذا ويبيع على أن ما يحصل من الربح بيننا نصفين فدفع صح ذلك مضاربة كذا في الفصول العمادية۔"

((کتاب المضاربۃ باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۸۶، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فأما في القرض الجائز إذا كان قائما في يد المستقرض فلا يتعين في الرد وهو بالخيار إن شاء رده، وإن شاء رد مثله كذا في محيط السرخسي۔"

(کتاب البیوع باب تاسع عشر ج نمبر ۳  ص نمبر ۲۰۱،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں