بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ربیبہ کے ہونٹ پر بوسہ دینے سے حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

 ایک شخص نے ایک بیوہ عورت سے شادی کی ،اس عورت کی پہلے شوہر سے ایک بچی تھی، جو نو سال سے زائد عمر کی ہے، اس شخص نے جب اس سے شادی کی تو ڈیڑھ سال کے بعد اس شخص نے اس ربیبہ لڑکی کو بغیر شہوت کےبو سہ دیا، شہوت میں  شک ہے، نہ آلہ تناسل کے انتشار کا یاد ہے اور غالب گمان بالکل بھی نہیں ہے کہ اسے شہوت پیش آئی تھی، بعد میں انتشار کی مضمحل صورت ذہن میں ہے، یقین کامل نہیں ہو رہا ہے،ایسی صورت میں اس شخص نے اس ربیبہ لڑکی کو بوسہ بلا حائل دے دیا ہونٹ میں، معلوم یہ کرنا تھا کہ کیا اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے؟

احوال وقرائن یہ تھے کہ رات چھت پر سو رہے تھے اور صبح جب اٹھے  تو میرے بائیں طرف بیوی سوئی ہوئی تھی اور میرے پیروں کے حصے کی طرف وہ ربیبہ لڑکی سوئی ہوئی تھی، میلان ہو گیا، لیکن شہوت کا بالکل بھی یاد نہیں ہے اور انتشار کا بھی بالکل بھی یاد نہیں ہے ،ذہن سے بالکل ذھول ہے،گمان غالب بھی نہیں ہے تو اس صورت میں کیا مسئلہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فقہاء کرام نے  شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمتِ مصاہرت کے ثابت ہونے میں ایک وضاحت یہ کی ہے اگر جسم کے ایسے حصہ کو بوسہ دیا کہ جہاں شہوت کا گمان غالب ہوتا ہے تو اس کو بوسہ دینے  سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ، تاہم شہوت نہ ہونے کا یقین کے ساتھ ثابت ہوجائے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل جب  صبح سوکر اٹھا اور اس کا میلان اپنی مذکورہ ربیبہ،  جو کہ نو سال سے زائد عمر کی ہے،   کی طرف ہوا،  جس کے بعد اس نے ربیبہ کے ہونٹ پر بوسہ دیا،  اور اس کو شہوت ہونے نہ ہونے میں شک ہے،عدمِ  شہوت کا یقین نہیں ہے ،نیز فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق مشتہاۃ کے ہونٹ پر بوسہ دینے کی صورت میں دعوی عدمِ شہوت قابل اعتبار نہیں ہوتا، لہذ ا اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی ہے ، اب اس ربیبہ کے اصول(ماں ،نانی وغیرہ ) و فروع (بیٹی ،نواسی وغیرہ)سائل پر اور سائل کے اصول و فروع اس ربیبہ پر ہمیشہ کے  لیے حرام ہوگئے ہیں ،چنانچہ اس ربیبہ کی ماں   سائل پر ہمیشہ کے  لیے حرام ہوگئی ہے ،نکاح فاسد ہوگیا ہے۔

یعنی سائل   پر لازم ہو ہے کہ وہ اپنی بیوی (مذکورہ ربیبہ  کی ماں) کو طلاق دے کر  یا نکاح سے نکالنے کے الفاظ ادا کرکے علیحدہ کردے یا پھربیوی  عدالت کے مسلمان جج  کے ذریعہ نکاح کو فوری طور پر فسخ کرائے، اور اس کے بعد  اس عورت کے لیے عدت گزار کر کسی دوسری جگہ نکاح جائز ہوگا،اور تاخیر کی صورت میں بیوی شوہر سےمکمل  علیحدہ رہنے کی کوشش کرے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إذا قبلها ثم قال: لم يكن عن شهوة أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال: لم يكن بشهوة فقد ذكر الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - في التقبيل يفتى بثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر، كذا في المحيط. هذا إذا كان المس على غير الفرج وأما إذا كان على الفرج فلا يصدق أيضا، كذا في الظهيرية. وكان الشيخ الإمام الأجل ظهير الدين المرغيناني يفتي بالحرمة في القبلة في الفم والخد والرأس وإن كان على مقنعة وكان يقول لا يصدق في أنه لم يكن بشهوة."

  (كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، 1/ 276، ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي."

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج: 3، ص: 33، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا، وفي الخانية إن النظر إلى فرج ابنته بشهوة يوجب حرمة امرأته وكذا لو فزعت فدخلت فراش أبيها عريانة فانتشر لها أبوها تحرم عليه أمها (وبنت) سنها (دون تسع ليست بمشتهاة) به يفتى.

(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ج:3، ص:37، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503100027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں