بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ربیع الاول میں میلاد اور صفر کے مہینے میں کھیر بنانے کاحکم


سوال

1 ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی، ربیع الاول کے مبارک مہینے میں بہت سے لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، اور بہت سے لوگ نعت خوانی یعنی میلاد کا اہتمام کرتے ہیں، تو کیا نعت خوانی یعنی میلاد کروانا قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کہ نہیں؟

2 ۔ صفر کے مہینے میں  بعض لوگ کھیر کی دیگ پکا کر کہتے ہیں کہ جو منت مانگو پوری ہوگی اور یہ کھیر گھر سے باہر بھی نہیں جائے گی، جس جس نے کھانا ہو وہ گھر آکر کھائے گا، سہ پہر سے پہلے کھیر تیار کر کے رکھ دی جاتی ہے، سبز کپڑا اوپر ڈالنا ضروری ہوتا ہے، پھر سب لوگ  جائیں تو کپڑا ہٹا کے دیکھتے ہیں کہ آیا کھیر پر کیا لکھا ہوا ہے ؟بعض لوگ کہتے ہیں  اللہ تعالیٰ کا نام ہے ،کوئی کہتا کہ نہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک نظر آرہا ہے، کوئی کہتا ہے پنجہ نظر آرہا ہے، آیا یہ  دیگچی دینا قرآن اور حدیث سنت سے ثابت ہے کہ نہیں؟

جواب

1۔  نبی اکرم ،رسولِ معظم ،شافعِ محشر، محمد امی عربی ہاشمی صلوات اللہ علیہ و  علیٰ آلہ کی ولادت باسعادت اور بعثت  امت ِ محمدیہ  کے لیے رحمت وسعادت کا ذریعہ ہے اوراس نعمتِ عظمیٰ پر  جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ مؤمن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اس کو نہ ہو، لیکن محبت سچی اورقابل قبول اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ وہ شرعی اصولوں سے نہ ٹکراتی ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واحوال، فضائل ومناقب اور حیات طیبہ کے مختلف گوشے اجاگرکرنا، اس پر  بیان وتقریر کرنا کارِ ثواب ہے، لیکن یہ اسی وقت ہے جب کہ سنت وشریعت کے مطابق ہو،اس کے بعد یہ بات واضح طورپر سمجھ لینی چاہیےکہ  شریعتِ مطہرہ  کاعام ضابطہ یہ ہے کہ شریعت نے جس  عمل کو مطلق رکھاہو،اس کی خاص کیفیت  بیان نہیں کی  ہو اور نہ کسی وقت کی تعیین اور تحدید کی ہو تو اس عمل کو اسی طرح مطلق طورپراداکرناچاہیے،اس  کو  کسی خاص کیفیت  کے ساتھ اداکرنا یا پھر کسی وقت کو متعین کرکے اس میں ان اعمال کو اداکرنا اور نہ کرنے والے  پر لعن طعن کرنا   منشا شریعت   کے خلاف ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں    مروجہ میلاد میں چوں کہ  مجالس کا  خاص کیفیات کے ساتھ التزام کیا جاتاہے، اور نہ کرنے والوں کو برا بھلاکہا جاتاہے، اس لیے  اس کے بدعت ہونے میں کوئی  شک وشبہ نہیں ہے، دوسرا یہ ہے کہ جو کام نبی  کریم ﷺ، صحابہ کرام ،تابعین اور  تبعِ تابعین کے زمانے میں  نہیں تھا، اس کو  دین سمجھ کر کر نا بدعت ہونے کی وجہ سے ناجائز  وحرام ہے۔

2۔ماہِ صفرالمظفر کے متعلق  کھیر وغیرہ کے پکانے  کےجورسوم ورواج ہمارے دریا میں رائج ہیں،شرعاً ان کی کوئی اصل  نہیں ،اور ان کو باقاعدہ دین سمجھ کر  شرعی حیثیت دینا بدعت اور ضلالت وگمراہی ہے،ان تمام  لایعنی امور سے نکل کر  رسول اکرم ﷺ  کی مبارک سنتوں  سے اپنی زندگیوں  کو منور کرنے کی ضرورت  ہے کہ اسی  کے  اختیار کرنے میں ہی   امت کا نجات ہے۔

’المدخل لابن الحاج‘‘ میں ہے :

"ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادهم أن ذٰلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما يفعلونه في شہر ربيع الأول من مولد وقد احتوی علي بدع ومحرمات جملة ....... وعمل طعامًا فقط ونوی به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من کل ما تقدم ذکره فهو بدعة بنفس نيته فقط، إذ أن ذلک زيادة في الدين وليس من عمل السلف الماضين، واتباع السلف اولي بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما کانوا عليه، لأنہم أشد الناس اتباعًا لسنة رسول اللہ -صلی اللہ عليہ وسلم- وتعظيمًا له ولسنته -صلي اللہ عليہ وسلم- ولهم قدم السبق في المبادرة إلی ذٰلک ولم ينقل عن أحد منهم أنه نوی المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسهم."

( فصل في مولد النبيؐ، ج: 2، ص: 2، 10، ط: دار التراث)

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا يعقوب: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ‌أحدث ‌في ‌أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."

(ج:2، ص: 909، رقم الحدیث:2550،ط: دارابن کثیر)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144503100196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں