بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رابعہ بصریہ کون تھیں؟


سوال

رابعہ بصری کے بارے میں مستندروایات سے بتادیں کہ وہ کون تھیں؟ اور ان کے واقعات  کافی مشہور ہیں، لیکن مجھے  مستند خبر  مطلوب ہے۔

 

جواب

رابعہ بصریہ کا نام رابعہ بنت اسماعیل ہے،   یہ تبع تابعین میں سے تھیں، اور یہ  ایک عبادت گزار، دنیا سے بے رغبت اور حُبّ الہی میں ڈوبی ہوئی ، ولیہ خاتون تھیں۔ ان کی پیدائش پہلی صدی ہجری کے آخر میں ہوئی، اور ان کی وفات سن (180ھ) میں ہوئی،  یہ  اپنی عبادت و ریاضت اور حکمت بھرے  اقوال  کے لیے مشہور تھیں،اور  اپنے علم، ریاضت اور زہد وعبادت سے انہوں  ایسا مقام حاصل کیا کہ ان کے عہد کے بڑے بڑے عالم و صوفیاء ان کے پاس بیٹھنا اور ان کی گفتگو سننا اپنے لیےسعادت سمجھتے تھے، امام  سفیان ثوری اورامام  شعبہ رحمہما اللہ جیسے اہل علم بھی ان کے پاس جایا کرتے تھے۔با  قی ان کی طرف منسوب  کسی واقعہ کی تصدیق مطلوب  ہو تو اس واقعہ کو لکھ کر دوبارہ سوال کیجیے۔

" رابعة العدوية : البصرية، الزاهدة، العابدة، الخاشعة، أم عمرو رابعة بنت إسماعيل، ولاؤها للعتكيين. ولها سيرة في "جزء" لابن الجوزي.قال خالد بن خداش: سمعت رابعة صالحا المري يذكر الدنيا في قصصه، فنادته: يا صالح، من أحب شيئا، أكثر من ذكره.وقال محمد بن الحسين البرجلاني: حدثنا بشر بن صالح العتكي، قال: استأذن ناس على رابعة ومعهم سفيان الثوري، فتذاكروا عندها ساعة، وذكروا شيئا من الدنيا، فلما قاموا، قالت لخادمتها: إذا جاء هذا الشيخ وأصحابه، فلا تأذني لهم، فإني رأيتهم يحبون الدنيا.وعن أبي يسار مسمع، قال: أتيت رابعة، فقالت: جئتني وأنا أطبخ أرزا، فآثرت حديثك على طبيخ الأرز، فرجعت إلى القدر وقد طبخت.

ابن أبي الدنيا: حدثنا محمد بن الحسين، حدثني عبيس بن ميمون العطار، حدثتني عبدة بن أبي شوال -وكانت تخدم رابعة العدوية- قالت: كانت رابعة تصلي الليل كله، فإذا طلع الفجر، هجعت هجعة حتى يسفر الفجر، فكنت أسمعها تقول: يا نفس كم تنامين، وإلى كم تقومين، يوشك أن تنامي نومة لا تقومين منها إلا ليوم النشور.قال جعفر بن سليمان: دخلت مع الثوري على رابعة، فقال سفيان: واحزناه! فقالت: لا تكذب، قل: واقلة حزناه!وعن حماد، قال: دخلت أنا وسلام بن أبي مطيع على رابعة، فأخذ سلام في ذكر الدنيا، فقالت: إنما يُذكَرُ شيءٌ هو شيء، أما شيءٌ ليس بشيء، فلا.شيبان بن فروخ: حدثنا رياح القيسي، قال: كنت اختلفت إلى شميط أنا ورابعة، فقالت مرة: تعال يا غلام، وأخذت بيدي، ودعت الله، فإذا جرة خضراء مملوءة عسلا أبيض، فقالت: كل، فهذا -والله- لم تحوه بطون النحل، ففرغت من ذلك، وقمنا، وتركناه.قال أبو سعيد بن الأعرابي: أما رابعة: فقد حمل الناس عنها حكمة كثيرة، وحكى عنها: سفيان، وشعبة، وغيرهما ما يدل على بطلان ما قيل عنها.....

قيل: عاشت ثمانين سنة. توفيت سنة ثمانين ومائة.

(سير أعلام النبلاء: ترجمة رابعة العدوية  (7/  273، 274)، رقم الترجمة (1223)، ط. دار الحديث- القاهرة، الطبعة: 1427هـ-2006م)

فقظ والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں