اگر کوئی شخص ربیع الاول میں اپنے گھر کو اور اپنے محلے کو سجاۓ، لیکن اس سجانے کو دین نہ سمجھے، بلکہ اپنی خوشی سے سجاۓ، تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا ؟ براہ کرم وضاحت فرما دیں ۔
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد یقیناً دنیا کے لیے ایک نعمت ہے، اندھیروں میں ایک روشنی ہے، اور ایک مسلمان کا اس پر خوش ہونا فطری امر ہے، جس سے انکار ممکن نہیں، البتہ اس پر خوش ہونے کا وہی طریقہ اختیار کرنا جائز ہوگا، جو دین وشریعت کے موافق ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہو، اور صحابہ وتابعین نے اس پر عمل کیا ہو، یہی آپ ﷺ کی آمد کے مقصد کی حقیقی پیروی ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری پر ربیع الاول میں اپنے گھر کو دین کا حصہ سمجھتے ہوئے سجائے، اور سمجھے کہ اس چراغاں پر مجھے ثواب ملے گا، تو یہ بدعت ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص بغیر ثواب کی نیت کے صرف اپنی خوشی سے ربیع الاول میں گھر کو سجائے، تو یہ بھی گناہ ہے؛ کیوں کہ اس میں اہلِ بدعت کے ساتھ مشابہت پائی جارہی ہے، اور جس طرح شریعت میں گناہ کرنا حرام ہے، اسی طرح گناہ گاروں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع اور مکروہ ہے، نیز اس میں بے جا فضول خرچی اور اسراف کی قباحت بھی پائی جاتی ہے۔
اس لیے ولادت کی خوشی میں چراغاں کرنے، محافل منعقد کرنے، اور دیگر مروجہ خرافات کرنے کے بجائے یوں کر سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کا عزم کرلیں، یہ حقیقی محبت ہے، دن اور وقت متعین کیے بغیر آپ ﷺ کی دنیا میں آمد پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے شکرانہ کے نوافل ادا کرلیں، روزے رکھیں، کثرت سے انفرادی طور پر اخلاص کے ساتھ درود شریف پڑھ کر آپ ﷺ کو اس کاثواب پہنچائیں، تو اس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں ہی خوش ہوں گے۔
اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیےشہیدِ اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب "اختلافِ امت ا ور صراط مستقیم" ،ص:٨٦ تا ٩٨ کو ملاحظہ فرمائیں۔
مذکورہ مضمون مندرجہ ذیل لنک سے بھی حاصل کرسکتے ہیں:
عید میلاد النبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )
قرآن مجیدمیں ہے:
"{وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ}." ( آل عمران: ٨٥)
ترجمہ:"اور جو شخص اسلام کےسوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا، پس اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائےگا، اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سے ہوگا۔"
شرح صحيح البخارى لابن بطال میں ہے:
"قَالَ النَّبِىّ (صلى الله عليه وسلم) : (لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَأْخُذَ أُمَّتِى بِأَخْذِ الْقُرُونِ قَبْلَهَا، شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَفَارِسَ وَالرُّومِ، فَقَالَ: وَمَنِ النَّاسُ إِلا أُولَئِكَ)
وفيه: أَبُو سَعِيد، قَالَ النَّبِىّ (صلى الله عليه وسلم) : (لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ؟) .
قال المهلب: قوله: (لتتبعن سنن من كان قبلكم) بفتح السين هو أولى من ضمها؛ لأنه لا يستعمل الشبر والذراع إلا في السنن وهو الطريق فأخبر (صلى الله عليه وسلم) أن أمته قبل قيام الساعة يتبعون المحدثات من الأمور، والبدع والأهواء المضلة كما اتبعتها الأمم من فارس والروم حتى يتغير الدين عند كثير من الناس، وقد أنذر (صلى الله عليه وسلم) فى كثير من حديثه أن الآخر شر، وأن الساعة لا تقوم إلا على شرار الخلق، وأن الدين إنما يبقى قائمًا عند خاصة من المسلمين لا يخافون العداوات، ويحتسبون أنفسهم على الله في القول بالحق، والقيام بالمنهج القويم في دين الله. وفي رواية الأصيلى: (بما أخذ القرون) وللنسفي وابن السكن: (بأخذ القرون) وقال ثعلب: أخَذَ أَخْذ الجهة: إذا قصد نحوها."
(باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، ١٠/ ٣٦٦، ط: مکتبة الرشید،ریاض)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق، هذا وقد حكى حكاية غريبة ولطيفة عجيبة، وهي أنه لما أغرق الله - سبحانه - فرعون وآله لم يغرق مسخرته الذي كان يحاكي سيدنا موسى - عليه الصلاة والسلام - في لبسه وكلامه ومقالاته، فيضحك فرعون وقومه من حركاته وسكناته ; فتضرع موسى إلى ربه: يا رب! هذا كان يؤذي أكثر من بقية آل فرعون، فقال الرب تعالى: ما أغرقناه ; فإنه كان لابسا مثل لباسك، والحبيب لا يعذب من كان على صورة الحبيب، فانظر من كان متشبها بأهل الحق على قصد الباطل حصل له نجاة صورية، وربما أدت إلى النجاة المعنوية، فكيف بمن يتشبه بأنبيائه وأوليائه على قصد التشرف والتعظيم، وغرض المشابهة الصورية على وجه التكريم؟"
(كتاب اللباس، ٧/ ٧٨٢، رقم الحديث: ٤٣٤٧، ط: دار الفكر)
فتح الباری لابن حجر میں ہے:
"والأقوى أنه ما أنفق في غير وجهه المأذون فيه شرعًا سواء كانت دينيةً أو دنيويةً فمنع منه؛ لأنّ الله تعالى جعل المال قيامًا لمصالح العباد وفي تبذيرها تفويت تلك المصالح، إما في حق مضيعها وإما في حق غيره ويستثنى من ذلك كثرة إنفاقه في وجوه البر لتحصيل ثواب الآخرة ما لم يفوت حقًّا أخرويًّا أهم منه."
(كتاب الأدب، باب قوله عقوق الوالدين من الكبائر، ١٠/ ٤٠٨، ط: دار المعرفة)
المحیط البرہانی میں ہے:
"وسئل أبو بكر عمن أوصى بثلث ماله لأعمال البر هل يجوز أن يسرج المسجد؟ قال: يجوز، قال: ولا يجوز أن يزاد على سراج المسجد سواء كان في شهر رمضان أو غيره؛ لأن فيه إسراف، قال: ولا يزين به المسجد."
(كتاب الوقف، الفصل الحادي والعشرون، ٦/ ٢١٤، ط: دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخانية رجل أوصى بثلث ماله لأعمال البر هل يجوز أن يسرج المسجد منه قال الفقيه أبو بكر يجوز ولا يجوز أن يزاد على سراج المسجد لأن ذلك إسراف سواء كان ذلك في رمضان أو غيره ولا يزين المسجد بهذه الوصية. اهـ.
ومقتضاه منع الكثرة الواقعة في رمضان في مساجد القاهرة ولو شرط الواقف لأن شرطه لا يعتبر في المعصية وفي القنية وإسراج السرج الكثيرة في السكك والأسواق ليلة البراءة بدعة وكذا في المساجد ويضمن القيم وكذا يضمن إذا أسرف في السرج في رمضان وليلة القدر."
(كتاب الوقف، ٥/ ٢٣٢، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502102017
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن