بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ربیع الاول میں قرآن خوانی کرنا


سوال

اگر کوئی کہے کہ ربیع الاول کی وجہ سے قرآن ختم کروا رہی ہوں اور یہ پارہ پڑھنا،  کیا ایسے کرنا ٹھیک ہے اور اس وجہ سے قرآن ختم کرو انا درست ہے ؟

جواب

 آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت باسعادت اور بعثت ،  اُمتِ محمدیہ کے لیے رحمت وسعادت کا ذریعہ ہے اوراس نعمت کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ مؤمن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کوآنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم   سے سچی محبت نہ ہو ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایصال ِ ثواب کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا  انتہائی سعادت اور خوش بختی  ہے،   لیکن یہ اسی وقت ہے جب کہ سنت وشریعت کے مطابق ہو، جب کہ  ایصال ِ ثواب کے لیے  کسی خاص مہینے یا کسی خاص دن کی تعیین کرنا قرآن وسنت سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے  درست نہیں ہے، لہذا ربیع الاول کے مہینہ   یا اس کے کسی خاص دن  میں تعیین  کے ساتھ ایصال ثواب کے لیے  قرآن خوانی کو لازم سمجھ  کر کرنا درست نہیں ہے،  البتہ اگر اگر کسی خاص دن یا مہینے کی تعیین کولازم یا باعثِ ثواب سمجھے بغیر جس قدر قرآن کی تلاوت کرکے ایصال ِ ثواب کیا جائے تو  یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

المدخل لابن الحاج  میں ہے:

"وهذه المفاسد مركبة على فعل المولد إذا عمل بالسماع فإن خلا منه وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة في الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنهم أشد الناس اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيما له ولسنته صلى الله عليه وسلم ولهم قدم السبق في المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منهم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم.  وقد علم أن اتباعهم في المصادر والموارد كما قال الشيخ الإمام أبو طالب المكي - رحمه الله تعالى - في كتابه وقد جاء في الخبر «لا تقوم الساعة حتى يصير المعروف منكرا والمنكر معروفا» انتهى. وقد وقع ما قاله عليه الصلاة بسبب ما تقدم ذكره وما سيأتي بعد لأنهم يعتقدون أنهم في طاعة ومن لا يعمل عملهم يرون أنه مقصر بخيل فإنا لله وإنا إليه راجعون."

(المرتبة الثانية، فصل في مولد النبي والبدع المحدثة فيه، 2/ 10، دارالتراث)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".

(الاعتصام للشاطبي، الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، (ص: 53)  ط: دار ابن عفان، السعودية)

مرقاة المفاتیح  میں ہے:

"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(کتاب الصلاة،  الفصل الأول، 3/ 31، ط: رشیدیة) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں