بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رب المال کا مضارب سے نقصان کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

میں نے اپنے ایک عزیز کے ساتھ کاروبار کیا ، کاروبار کی نوعیت کچھ اس طرح تھی ، بندہ 2009ء تا 2015ء "پاک قطر فیملی تکافل" میں کام کرتا رہا ، میرے مذکورہ عزیز نے مجھے اور میرے گھر والوں کو کہا کہ یہ کام درست نہیں ، آپ ان کہیں کہ "پاک قطر فیملی تکافل" چھوڑ دیں ،میں ان کو پیسے دیتا ہوں  یہ ان سے کاروبار کریں ، اس آفر کے بعد بندہ نے اور میرے گھر والوں نے کہا کہ اگر نقصان ہوجاتا ہے  تو ہم آپ کو اتنی رقم کہاں سے دیں گے ! تو میرے رشتہ دار نے کہا پھر کیا ہوا کاروبار میں نقصان تو ہوتا رہتا ہے ، چنانچہ میں نے ہامی بھر لی اور کاروبار شروع کردیا ، جس میں اونچ نیچ ہوتی رہی ، میں نے تمام تر آمدنی و اخراجات کو لکھا ، لیکن چوں کہ اس کاروبار میں (Raw Material) خام مال باہر سے آتا تھا جس کی وجہ سے نقصان زیادہ ہوا ، تو میں نے 2019ء میں اپنے رشتہ دار سے کہا کہ اس کاروبار کو بند کردیتے ہیں ، نقصان زیادہ ہورہا ہے ، چنانچہ ان کی رضامندی سے بند کردیا ، اس کی مشینری کو فروخت کردیا ، اس کے پیسے بھی میرے رشتہ دار نے لے لیے ، اب میرا رشتہ دار کا مطالبہ ہے کہکاروبار میں جو بھی نقصان ہوا ہے اس کا پچاس فی صد آپ ادا کریں ، اس کی رقم تقریباً بائیس لاکھ روپے بنتی ہے ، واضح رہے کہ جب کاروبار شروع ہوا تھا اس وقت میرے رشتہ دار نے کہا تھا کہ نفع آدھا آدھا ہوگا ، نقصان کا ذکر نہ تحریراً تھا نہ زبانی، ویسے بھی اس کاروبار میں پیسہ رشتہ دار کا تھا اور محنت میری تھی ، میں نے ان سے عرض کی کہ میرے ذمّہ نقصان نہیں بنتا ، یہ کاروبار (مضاربت) کی بنیاد پر تھا ، دوسرا ان سے میں نے یہ عرض کی کہ آپ کسی مستند عالم و مفتی صاحب کے پاس مجھے لے چلیں اگر وہ مجھے فرمادیں کہ میرا نقصان بنتا ہے تو تب بھی میں ادا کروں گا وہ اس بات پر بھی راضی نہیں ہوئے ، ان کا مطالبہ ہے کہ آپ پچاس فی صد نقصان ادا کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکور معاملہ عقد مضاربت کا  ہےاور "مضاربت" کے معاملہ میں اصول یہ ہے کہ اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو اولاً نفع سے پورا کیا جاتا ہے اگر نقصان نفع سے پورا نہ ہو تو اس  نقصان کی ذمہ داری رب المال ( انویسٹر ) پر عائد ہوتی ہے بشرط یہ کہ اس نقصان میں مضارب کی کوتاہی اور غفلت کوئی دخل نہ ہو لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کو اس کے کسی رشتہ دار نے سرمایہ فراہم کیا اور سائل نے اس کے سرمایہ سے کام کیا تو شرعاً یہ معاملہ مضاربت کا ہے  اب اگر اس کاروبار میں نقصان ہوا ہے ،تو اس نقصان کو  سب سے پہلے اس نفع سے پورا کیا جائےگا   جو اس  مضاربت سے حاصل ہوا ہے  ، یعنی جب سے یہ معاملہ شروع ہوا تاحال فریقین نے نفع کا نام پر جتنی رقم وصول کی ہے پہلے وہ واپس لی جائے گی اور نقصان کو اس سے پورا کیا جائے گا ، اگر وہ نقصان نفع سے پورا نہ ہو تو پھر یہ نقصان  رب المال (سرمایہ لگانے والے) کا شمار ہوگا ، سرمایہ لگانے والے کا سرمایہ کم ہوگا اور محنت کرنے والے کی محنت ضائع ہوگی۔

"مصنف عبد الرزاق" میں ہے:

"أخبرنا عبد الرزاق، قال: قال القيس بن الربيع، عن أبي الحصين، عن الشعبي، عن علي في المضاربة: ‌الوضيعة ‌على ‌المال، ‌والربح ‌على ‌ما ‌اصطلحوا ‌عليه."

(كتاب البيوع، باب نفقة المضارب ووضيعته، رقم الحدیث:16029، ج:8، ص:68، ط:دار التأصيل)

"سنن الكبرى للبيهقي"  میں ہے:

"ويروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:  ‌كل ‌أحد ‌أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين."

(‌‌‌‌كتاب النفقات، باب نفقة الأبوين، ج:7، ص:790، ط:العلمية)

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ‌ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"الهداية في شرح بداية المبتدي" میں ہے:

"‌المضاربة ‌عقد ‌على ‌الشركة بمال من أحد الجانبين ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر."

(‌‌كتاب المضاربة، ج:3، ص:200، ط:دار احياء التراث العربي)

فتاو یٰ شامی میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر."

(کتاب المضاربة، باب المضارب یضارب، فصل فی المتفرقات فی المضاربة، ج:5، ص:656، ط:سعید)

"مجلة الأحکام العدلية" میں ہے:

"إذا تلف مقدار من مال المضاربة فيحسب في بادئ الأمر من الربح ولا يسري إلى رأس المال ، وإذا تجاوز مقدار الربح وسرى إلى رأس المال فلا يضمنه المضارب سواء كانت المضاربة صحيحة أو فاسدة."

(الکتاب العاشر الشرکات، الباب السابع في حق المضاربة، الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة، المادة:1427، ص:275، ط:دار الجیل)

"درر الحکام في شرح مجلة الأحکام" میں ہے:

"(يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط) . يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. ويستفاد هذا الحكم من الفقرة الثانية من المادة الآنفة وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط. انظر المادة (83) أي يكون الشرط المذكور لغوا فلا يفسد المضاربة (الدرر) ؛ لأن هذا الشرط زائد فلا يوجب الجهالة في الربح أو قطع الشركة فلا تفسد المضاربة به حيث إن الشروط الفاسدة لا تفسد المضاربة (مجمع الأنهر)."

(الکتاب العاشر الشرکات، الباب السابع في حق المضاربة، الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة، المادة:1428، ج:3، ص:459، ط:دار الجیل)

فتاو یٰ شامی میں ہے:

"(وركنها الإيجاب والقبول وحكمها) أنواع؛ لأنها (إيداع ابتداء) ۔۔۔ (وتوكيل مع العمل) لتصرفه بأمره (وشركة إن ربح وغصب إن خالف وإن أجاز) رب المال (بعده) لصيرورته غاصبا بالمخالفة (وإجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله مطلقا) ربح أو لا (بلا زيادة على المشروط) خلافا لمحمد والثلاثة."

"(قوله: مطلقا) هو ظاهر الرواية قهستاني (قوله ربح أو لا) وعن أبي يوسف إذا لم يربح لا أجر له وهو الصحيح لئلا تربو الفاسدة على الصحيحة سائحاني ومثله في حاشية ط عن العيني (قوله على المشروط) قال في الملتقى: ولا يزاد على ما شرط له كذا في الهامش أي فيما إذا ربح وإلا فلا تتحقق الزيادة فلم يكن الفساد بسبب تسمية دراهم معينة للعامل تأمل (قوله خلافا لمحمد) فيه إشعار بأن الخلاف فيما إذا ربح، وأما إذا لم يربح فأجر المثل بالغا ما بلغ؛ لأنه لا يمكن تقدير بنصف الربح المعدوم كما في الفصولين لكن في الواقعات ما قاله أبو يوسف مخصوص بما إذا ربح وما قاله محمد إن له أجر المثل بالغا ما بلغ فيما هو أعم قهستاني (قوله: والثلاثة) فعنده له أجر مثل عمله بالغا ما بلغ إذا ربح در منتقى كذا في الهامش."

(كتاب المضاربة، ج:5،ص:646، ط:سعيد)

"مجلة الأحكام العدلية" میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة، المادة:97، ج:1، ص:51، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب آرام باغ كراتشي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں