بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ربّنا ولك الحمدُ کے بعد حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه کا ثبوت اورحکم


سوال

نماز میں  ربّنا ولك الحمدُکے بعدحمداً كثيراً طيباً مباركاً فيهکہنا حدیث سے ثابت ہے ؟کیا اس طرح صحابہ  كرام رضي الله عنهم یا سرور ِکونین  صلي الله عليه وسلم سے ثابت ہے؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

حضرت رفاعہ بن رافع زرقی رضي الله عنه  فرماتے ہیں:ہم ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہاتوپیچھے(مقتدیوں میں)  سےایک شخص نے  رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ پڑھا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:( یہ کلمات) کس نے کہے تھے؟ وہ شخص بولا: میں نے( کہے تھے)،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات  کو لکھنے میں ایک دوسرے سے سبقت کر رہے تھے۔

البتہ ان کلمات کے  متعلق حکم یہ ہے کہ یہ نوافل پر محمول ہے، فرائض پر محمول نہیں،اس لیے امام  جماعت کی نماز میں مذکورہ کلمات نہ پڑھے، مقتدی کو اگر "ربَّنا لك الحمدُ"  کہنے کے بعدمذکورہ کلمات کہنےکا موقع مل جائے اور وہ امام سے پیچھے نہ رہ جاتا ہو توپڑھ سکتا ہے، ورنہ اسے نہیں پڑھنے چاہئیں۔ اورمنفردہر نماز میں قومے کے دوران مذکورہ کلمات پڑھ سکتا ہے۔   

"صحيح البخاري"میں ہے:

"حدّثنا عبد الله بن مَسلمة، عن مالك، عن نُعيم بن عبد الله المُجمر، عن علي بن يحيى بن خلّاد الزُّرقي، عن أبيه، عن رِفاعة بن رافع الزُّرقي، قال: كنا يوماً نصلّي وراء النبي -صلّى الله عليه وسلّم-، فلما رفع رأسه من الركعة قال: سمِع الله لمن حمده ، قال رجلٌ وراءه: ربَّنا ولك الحمدُ حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه، فلما انصرف، قال: مَن المتكلّم؟ قال: أنا، قال: رأيتُ بِضعة وثلاثين ملكاً يبتدِرونها أيُّهم يكتبها أوّلُ ".

(صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب فضل اللهم ربنا لك الحمد، 1/159، رقم:799، ط:دار طوق النجاة)

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(ويجلس بين السجدتين مطمئناً) ... (وليس بينهما ذكرٌ مسنونٌ، وكذا) ليس (بعد رفعه من الركوع) دعاءٌ، وكذا لا يأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب) وما ورد محمولٌ على النفل  ... (قوله: محمولٌ على النفل) أي تهجداً أو غيرَه خزائن. وكتب في هامشه: فيه ردٌ على الزيلعي حيث خصّه بالتهجد. اهـ. ثمّ الحمل المذكور صرّح به المشايخُ في الوارد في الركوع والسجود، وصرّح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة وقال: على أنّه إنْ ثبت في المكتوبة فليكنْ في حالة الانفراد، أو الجماعة والمأمومون محصورون لا يتثقلون بذلك، كما نصّ عليه الشافعية، ولا ضررَ في التزامه وإن لم يصرّح به مشايخنا؛ فإنّ القواعد الشرعيّة لا تنبُو عنه، كيفَ والصّلاةُ والتسبيحُ والتكبيُر والقراءةُ كما ثبت في السُّنّة. اه".

(رد المحتار على الدر المختار، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:505-506، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں