بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رات کو کتا کے مسجد میں داخل ہونے کی صورت میں مسجد کے قالین کاحکم


سوال

رات کو ہماری مسجد کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا، میں فجر کی اذان  کے لیے جب مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا  مسجد کے اندر 5 کتے موجود تھے، میں تو یہ معلوم نہیں کرسکا کہ یہ کب سے مسجد میں داخل ہوگئے تھے، البتہ ظاہری طور پر خوب تلاش کرنے کے باوجود مسجد میں کہیں بھی لعاب یا پیشاب کا اثر نہیں ملا، پوری مسجد میں قالین بچھا ہوا ہے، قالین پر کہیں بھی گیلا پن یا اسکا کوئی اثر موجود نہیں تھا، اس کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق کتا نجس العین نہیں ہے، البتہ اس کا گوشت، لعاب (تھوک) اور پسینہ  ناپاک ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگران  کتوں  کے جسم پر ظاہراً کوئی نجاست لگی ہوئی نہیں تھی ، اور نہ ہی مسجد کے قالین پر ان  کے لعاب اور پیشاب وغیر ہ کا کوئی اثر دکھائی دے رہا تو مذکورہ قالین  وغیرہ پاک سمجھا جائے گا ،اور  اس پر نماز پڑھنا درست ہوگا ، البتہ   اس کے باوجود اگر باآسانی ممکن ہوتو احتیاطاً قالین کو دھلوالیا جائے تو بہتر ہوگا، اور فرش کو بھی پانی سے دھو لیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"واعلم أنه (ليس الكلب بنجس العين) عند الإمام، وعليه الفتوى، وإن رجح بعضهم النجاسة، كما بسطه ابن الشحنة، فيباع ويؤجر ويضمن، ويتخذ جلده مصلىً ودلواً، ولو أخرج حياً ولم يصب فمه الماء لايفسد ماء البئر ولا الثوب بانتفاضه ولا بعضه ما لم ير ريقه ولا صلاة حامله ولو كبيراً، وشرط الحلواني شد فمه. ولا خلاف في نجاسة لحمه وطهارة شعره.

 (قوله: ليس الكلب بنجس العين) بل نجاسته بنجاسة لحمه ودمه، ولايظهر حكمها وهو حي ما دامت في معدنها كنجاسة باطن المصلي فهو كغيره من الحيوانات (قوله: وعليه الفتوى) وهو الصحيح والأقرب إلى الصواب، بدائع. وهو ظاهر المتون، بحر. ومقتضى عموم الأدلة، فتح (قوله: فيباع إلخ) هذه الفروع بعضها ذكرت أحكامها في الكتب هكذا وبعضها بالعكس، والتوفيق بالتخريج على القولين، كما بسطه في البحر، وما في الخانية من تقييد البيع بالمعلم فالظاهر أنه على القول الثاني، بدليل أنه ذكر أنه يجوز بيع السنور وسباع الوحش والطير معلماً كان أو لا. تأمل... (قوله: ولا الثوب بانتفاضه) وما في الولوالجية وغيرها: إذا خرج الكلب من الماء وانتفض فأصاب ثوب إنسان أفسده لا لو أصابه ماء المطر؛ لأن المبتل في الأول جلده وهو نجس وفي الثاني شعره وهو طاهر. اهـ فهو على القول بنجاسة عينه كما في البحر ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا بعضه) أي عض الكلب الثوب (قوله: ما لم ير ريقه) فالمعتبر رؤية البلة، وهو المختار، نهر عن الصيرفية، وعلامتها ابتلال يده بأخذه، وقيل: لو عض في الرضا نجسه؛ لأنه يأخذ بشفته الرطبة لا في الغضب؛ لأخذه بأسنانه ... (قوله: ولا خلاف في نجاسة لحمه) ولذا اتفقوا على نجاسة سؤره المتولد من لحمه؛ فمعنى القول بطهارة عينه طهارة ذاته مادام حيا، وطهارة جلده بالدباغ والذكاة، وطهارة ما لاتحله الحياة من أجزائه كغيره من السباع".

(‌‌‌‌كتاب الطهارة ، باب المياه ج: 1 ص: 208 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں