بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعت کا دعوی ہو گواہ نہ ہو


سوال

میرے کزن سے میری منگنی کی بات ہوئی ہے، ہمارا ایک رشتہ دارہے وہ کہتا ہے کہ میں اس لڑکے  کو  بچپن میں  لڑکی کی امی کے پاس لے گیا تھا اور اسے دودھ دیا تھا ، لیکن میری امی  قسم کھا کے کہتی ہیں کہ یہ جھوٹ بولتا ہے میں نے اس کو دودھ نہیں دیا ،تو  اب کیا  میرا نکاح  اس سے ہو سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رضاعت   کے ثبوت کے لیے شرعا  دو عادل مرد یا ایک عادل  مرد اور دو عادل عورتوں کی شہادت ضروری ہے،لہذا  صورت مسئولہ  میں  صرف ایک شخص رضاعت کا دعویٰ کرنے والا ہے اور عورت انکار کرتی ہے، شرعی گواہ نہیں پائےجاتے ہیں، اس لیے محض ایک شخص کے دعوی سے  رضاعت ثابت نہیں ہوگی  ،لہذا سائلہ کا اپنے کزن سے نکاح جائز ہے۔

البتہ اگر لڑکا جس سے رشتہ ہونا ہے وہ اس دعوی پر اعتماد کرتا ہے کہ یہ شخص سچ کہتاہوگا، اس طرح وہ اس دعوی کی تصدیق کرتا ہے تو پھر اس کے لیے یہ رشتہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

مشکاۃ شریف میں حدیث ہے:

"وعن عقبة بن الحارث : أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتت امرأة فقالت : قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة : ما أعلم أنك قد أرضعتني ولا أخبرتني فأرسل إلى آل أبي إهاب فسألهم فقالوا : ما علمنا أرضعت صاحبتنا فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " كيف وقد قيل ؟ " ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره۔"

(كتاب النكاح ، باب المحرمات، ج:2، ص:218،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت عقبہ بن حارث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے  ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا، پھر ایک عورت آئی وہ کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس عورت کو جس سے اس نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے، عقبہ نے اس عورت کو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا اور تو نے مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع بھی نہیں دی ، پھر انہوں نے ایک  شخص کو ابو اہاب کے پاس بھیجا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری لڑکی کو کیا اس عورت نے دودھ پلایا ہے ، انہوں نے جواب دیا  ہمیں معلوم نہیں  کہ اس عورت نے ہماری لڑکی کو دودھ پلایا ہے یا نہیں ،چنانچہ عقبہ اسی وقت سوار ہو کر مدینہ منورہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اس کا حکم آپ ﷺسے دریافت کیا، تو آ پ ﷺ  نے فرمایا کہ تو اس عورت کو کس طرح  نکاح میں رکھے گا، جب کہ اس کے بارے میں یہ کہہ دیاگیا کہ وہ تیری دودھ شریک بہن ہے، تو عقبہ نے اس عورت کو جداکردیا،اس عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا۔"

(مظاہر حق)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة كذا في البدائع ولا يقبل في الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول۔"

وفیہ ایضاً:

"ولو تزوج امرأة فقالت امرأة أرضعتكما فهو على أربعة أوجه إن صدقاها فسد النكاح ولا مهر لها إن لم يدخل بها وإن كذباها فالنكاح بحاله لكن إذا كانت عدلا فالتنزه أن يفارقها كذا في التهذيب. وإذا فارقها فالأفضل له أن يعطيها نصف المهر إن كان قبل الدخول والأفضل لها أن لا تأخذ شيئا منه وإن كان بعد الدخول بها فالأفضل للزوج أن يعطيها كمال المهر والنفقة والسكنى والأفضل لها أن تأخذ الأقل من مهر مثلها ومن المسمى ولا تأخذ النفقة والسكنى وإن لم يطلقها فهو في سعة من المقام معها كذا في البدائع. وكذلك إذا شهدت امرأتان أو رجل وامرأة أو رجلان غير عدلين أو رجل وامرأتان غير عدول كذا في السراج الوهاج. وإن صدقها الرجل وكذبتها المرأة فسد النكاح والمهر بحاله وإن صدقتها وكذبها الرجل فالنكاح بحاله ولكن لها أن تحلفه ويفرق إذا نكل كذا في التهذيب."

(كتاب الرضاع، ج:1،ص: 347،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي  لتضمنها حق العبد (وهل يتوقف ثبوته على دعوى المرأة؛ الظاهر لا) لتضمنها حرمة الفرج وهي من حقوقه تعالى (كما في الشهادة بطلاقها).

(قوله: حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله: وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعًا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قيله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج:3، ص:224، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں