بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رات بارہ بجے نماز جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

کیا رات کو  بارہ بجے نماز جنازہ ہو سکتی ہے؟

جواب

رات کو بارہ بجے بھی نماز جنازہ پڑھانا اور پڑھنا جائز ہے، کیوں کہ نمازِ جنازہ پڑھانے اور پڑھنے کے لیے شریعتِ  مطہرہ کی طرف سے کوئی وقت مخصوص نہیں کیا گیا ہے، بلکہ انتقال کے بعد  جلد سے جلد تجہیز و تکفین کے بعد نماز جنازہ پڑھادینا چاہیے، چنانچہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے علی!  تین کام ایسے ہیں کہ ان میں دیر نہ کرو :  نماز جب اس کا وقت آجائے، جنازہ جب تیار ہوجائے، بے خاوند والی عورت  جب اس عورت کے لیے مناسب آدمی مل جائے (تو اس کا نکاح کردو)۔

لہٰذا انتقال کے بعد تجہیز وتکفین وتدفین کے انتظامات ہونے کی صورت میں کسی کے انتظار وغیرہ کی وجہ سے تاخیر کرنے کے بجائے فوراً  نماز پڑھا دینی چاہیے۔

البتہ تین مکروہ  اوقات  میں  جیسے دیگر نمازیں پڑھنا ممنوع ہیں، ایسے ہی نماز جنازہ پڑھنا بھی منع ہے، تین مکروہ اوقات سے مراد: عین طلوعِ شمس، غروبِ شمس اور استواءِ شمس کا وقت ہے۔  لیکن یہ ممانعت تب ہے، جب کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے تیار ہوکر آچکا ہو اور تاخیر کر کے ان اوقات میں پڑھایا جائے، اگر جنازہ تیار ہوکر ان ہی اوقات میں حاضر ہوجائے تو پھر تاخیر کرنے کے بجائے ان ہی اوقات میں پڑھادینا چاہیے، اس صورت میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔

اگر سائل کا مقصد رات بارہ بجے نمازِ جنازہ کے بارے میں سوال کرنے سے یہ ہے کہ رات میں بھی کیا زوال ہوتاہے، جیساکہ بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے، تو یہ عوام کی غلط فہمی ہے، رات کے وقت زوال نہیں ہوتا،  نہ ہی پوری رات میں کوئی وقت ایسا ہے جس میں نماز مکروہ ہو، ہاں یہ ضرور ہے کہ عشاء کی فرض نماز بغیر عذر کے نصف رات کے بعد پڑھنا مکروہ ہے، لیکن اس کراہت کی وجہ زوال نہیں ہے، بلکہ آدھی رات کے بعد صبح صادق تک کسی بھی وقت میں بغیر عذر کے تاخیر کرکے عشاء کی نماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔ 

مشكاة المصابيح (1/ 192):

"عن علي رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يا علي! ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤاً» . رواه الترمذي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370):

"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر، قنية (مع شروق) ... (واستواء) ... (وغروب، إلا عصر يومه) ... (وينعقد نفل بشروع فيها) بكراهة التحريم (لا) ينعقد (الفرض) وما هو ملحق به كواجب لعينه كوتر (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملاً فلا يتأدى ناقصاً، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريماً. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

 (قوله: وصلاة جنازة) فيه أنها تصح مع الكراهة كما في البحر عن الإسبيجابي وأقره في النهر. اهـ. ح. قلت: لكن ما مشى عليه المصنف هو الموافق لما قدمناه عن ح في الضابط وللتعليل الآتي وهو ظاهر الكنز والملتقى والزيلعي، وبه صرح في الوافي وشرح المجمع والنقاية وغيرها.

(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة. (قوله: أو تحريما) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.

(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلاً، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لا يستحب فيها مطلقا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں