بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 ذو القعدة 1446ھ 12 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مرتہن کا رہن رکھی ہوئی چیزکے بعض منافع اپنے لیے رکھنے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں یہ عرف ہے کہ اگر کسی کو  رقم/قرض  کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ قرض لے کر قرض دینے والے شخص  کے پاس اپنی زمین  گِروی رکھواتا ہے، پھر جب رقم واپس کرنے کا وقت آتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں:

1۔مقروض شخص نے جتنی رقم بطورِ قرض  لی  تھی  وہ پوری واپس کرتا ہےاور اپنی زمین واپس  لے لیتا ہے۔

2۔زمین  جس کے پاس گِروی رکھوائی ہے، وہی زمین کی دیکھ بھال کرتا ہے اور فصل بھی اُگاتا ہے، اور جب قرض واپس کرنے کا وقت آتا  ہے تو قرض دینے والا شخص اپنا پورا قرض وصول کرکے زمین مالک کو واپس کر دیتا ہے لیکن زمین سے حاصل شدہ پیداوار  میں سے اکثر حصہ اپنے لیے رکھتا ہے اور مالک کو کم  دیتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ رہن رکھی ہوئی چیز سےمرتہن  کا نفع حاصل کرنا اور اس میں تصرف کرنا  جائز نہیں ہے، نیز اگر کسی علاقہ میں رہن رکھی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرنے کا عرف ہو تو وہاں اگر  رہن رکھنے والا نفع حاصل کرنے کی  اجازت دے دے تب بھی مرتہن(جس کے پاس رہن رکھا گیا ہو)کے لیے اس چیز نفع حاصل کرنا  سود ہونے کی وجہ ناجائز  اور حرام  ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ 1۔ میں قرض دینے والا آدمی  رہن رکھے ہوئے زمانہ میں اگر مرہونہ  زمین سے  کسی قسم کا نفع حاصل نہ کرے  تو یہ صورت جائز ہے، اور اگر رہن کے زمانہ میں زمین  سے نفع حاصل کیا تو یہ صورت بھی ناجائز ہو گی۔

2۔ قرض دینے والا شخص جب قرض پورا وصول کرتا ہے تو اس کے لیے رہن رکھی ہوئی زمین  میں فصل اُگا کر پیداوار  سے کم یا زیادہ حصہ اپنے لیے رکھنا جائز نہیں ہے ، اگر اس نے فصل اُگالی ہے تو حاصل ہونے والی پوری پیداوار مالکِ زمین  (راہن) کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ فصل کی تیاری میں مرتہن کے جتنے اخراجات  ہوئے ہیں زمین واپس کرتے وقت مالکِ زمین سے صرف  ان اخراجات کا مطالبہ کرسکتاہے، اُن اخراجات سے زیادہ لیناسود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(لا انتفاع به مطلقا) لا باستخدام، ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر، وقيل لا يحل للمرتهن لأنه ربا، وقيل إن شرطه كان ربا وإلا لا....قال ط: قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع، والله تعالى أعلم".

(‌‌كتاب الرهن، ج : 6، ص : 482، ط : سعید)

وفيه ايضا :

"(ونماء الرهن) كالولد والثمر واللبن والصوف والوبر والأرش ونحو ذلك (للراهن) لتولده من ملكه.....ثم نقل عن التهذيب أنه يكره للمرتهن أن ينتفع بالرهن وإن أذن له الراهن.

قال المصنف: وعليه يحمل ما عن محمد بن أسلم من أنه لا يحل للمرتهن ذلك ولو بالإذن لأنه ربا.قلت: وتعليله يفيد أنها تحريمية فتأمله".

(‌‌‌‌‌‌كتاب الرهن، باب التصرف في الرهن، فصل في مسائل متفرقة، ج : 6، ص : 521 تا 23)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وكذا ليس للمرتهن أن ينتفع بالمرهون، حتى لو كان الرهن عبدا ليس له أن يستخدمه، وإن كان دابة ليس له أن يركبها، وإن كان ثوبا ليس له أن يلبسه، وإن كان دارا ليس له أن يسكنها، وإن كان مصحفا ليس له أن يقرأ فيه؛ لأن عقد الرهن يفيد ملك الحبس لا ملك الانتفاع".

(كتاب الرهن، فصل في حكم الرهن، ج : 8، ص : 183/86، ط : دار الکتب العلمیة)

عمدۃ الرعایۃ   میں ہے :

"(وإذا طلب دينه أمر بإحضار رهنه ، فإن أحضره سَلَّمَ كل دينه أولا، ثم رهنه، وإن طلب في غير بلد العقد إن لم يكن للرهن مؤنة حُمِل ، وإن كان سَلَّمَ دينه بلا إحضار رهنه ) ، إنَّما يُسَلِّمُ الدين أولاً لتعيين حق المرتهن كما ذكرنا في البيع أن الثمن يُسَلِّمُ أولاً لهذا المعنى...قوله : أمر بإحضار رهنه.... الخ ؛ لأن قبض الرهن قبض استيفاء، فلا يجوز أن يقبض ماله مع قيام يد الاستيفاء ؛ لأنه يتكرر الاستيفاء على اعتبار الهلاك في يد المرتهن وهو محتمل.قوله : سلم كل دينه أولاً ؛ أي أمر الراهن بتسليم الدين أولاً ليتعين حقه، كما تعين (حق) الراهن في الرهن تحقيقاً للتسوية، كما في تسليم المبيع والثمن، يحضر المبيع ثم يسلم الثمن أولاً".

(كتاب الرهن، ج : 7، ص : 371، ط :  دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں