بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

راگ باجے کا حکم


سوال

راگ، باجا کون سا حرام ہے؟

جواب

راگ ، باجا موسیقی میں استعمال ہونے والی اشیاء ہیں اور موسیقی ، گانا بجانا اور سننا  شریعت میں  حرام ہے، خواہ اس میں آلات موسیقی جیسے باجا وغیرہ استعمال ہوں  یا  موسیقی کے قواعد کے مطابق  سُر، راگ، مقامات، دورانیوں اور آوازوں کی ترتیب دے کر گانا گایا جائے؛ اس لیے کہ  موسیقی   ایسے فن کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے گانے میں سُر نکالنے کے احوال،  اور سُروں کی موزونیت کے احوال، اور آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے کے احوال، اور راگ کے احوال سے بحث کی جاتی ہے، لہذا  موسیقی (میوزک) کا اطلاق صرف آلاتِ موسیقی پر نہیں ہوتا بلکہ آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے  کو بھی موسیقی کہاجاتا ہے۔

الموسوعة الفقهية   میں ہے:

"وأما علم الموسيقى: فهو علم رياضي يعرف منه أحوال النغم والإيقاعات، وكيفية تأليف اللحون، وإيجاد الآلات".

(30/ 293، المادة: علم، ط: اميرحمزه كتب خانه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اختلفوا في التغني المجرد قال بعضهم إنه حرام مطلقا والاستماع إليه معصية وهو اختيار شيخ الإسلام ولو سمع بغتة فلا إثم عليه ومنهم من قال لا بأس بأن يتغنى ليستفيد به نظم القوافي والفصاحة ومنهم من قال يجوز التغني لدفع الوحشة إذا كان وحده ولا يكون على سبيل اللهو وإليه مال شمس الأئمة السرخسي."

(5/ 351،کتاب الکراهية، الباب السابع عشر فی الغناء و اللهو و سائر المعاصی و الامر بالمعروف، ط: رشیدیة)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"«وعن نافع - رحمه اللَّه - قال: كنت مع ابن عمر في طريق، فسمع مزمارا، فوضع أصبعيه في أذنيه وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: يا نافع! هل تسمع شيئا؟ قلت: لا، فرفع أصبعيه من أذنيه، قال: كنت مع رسول اللَّه فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت. قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيرا» . رواه أحمد، وأبو داود.

وفي فتاوى قاضي خان: أما استماع صوت الملاهي كالضرب بالقضيب ونحو ذلك حرام ومعصية لقوله عليه السلام: " «استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها من الكفر» " إنما قال ذلك على وجه التشديد وإن سمع بغتة فلا إثم عليه، ويجب عليه أن يجتهد كل الجهد حتى لا يسمع لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدخل أصبعه في أذنيه."

(9/ 51، باب البيان والشعر، الفصل الثالث، ط: مكتبه حنيفيه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں