بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تفریق کی صورت میں لڑکے والے اور لڑکی والوں کا تحائف کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حکم/ حقِ مہر بصورت زیوردینا اورتفریق کی صورت میں زیورکی بجائے رقم دینا/ تحفہ دے کر واپس لینے کا حکم


سوال

۱۔ایک لڑکی کی شادی کے تین مہینے بعد طلاق ہوگئی،طلاق کے بعد لڑکی سے تمام وہ سامان لے لیا جو لڑکے والوں کی طرف سے تھا، مثلاً: لڑکی کے کپڑے، دیگر ضروری سامان اور سونے کے زیورات جو تحفہ کی صورت میں دیےتھے،اب لڑکی والے بھی اپنا ہر وہ سامان لے سکتے ہیں جو انہوں نے لڑکے کو دیا تھا ؟کیا شریعت دونوں کو اس کی اجازت دیتی ہے؟ 

۲۔حق مہر کی رقم  زیور کی صورت میں پچیس ہزار مقرر ہوئی تھی  ، نکاح نامے میں بھی یہی تحریر ہے ،دیا بھی اسی طرح ہے، مگر طلاق کے بعد لڑکے والوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم زیور نہیں دیں گے، کیوں کہ زیور کی رقم مہر کی رقم سے زائد ہے ،ہم صرف مہر کی رقم دیں گے ،شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟

۳۔تحفہ دے کر واپس لینا کیسا ہے؟ کیوں کہ اب یہ رواج عام ہو گیاہے،عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ منگنی یا شادی ختم ہونے پر تمام تحائف وغیرہ لڑکی دے کر آ تی ہے اور اپنے لے کر آ تی ہے۔ 

جواب

۱۔صورت ِ مسئولہ میں  مذکورہ سامان،یعنی کپڑے،زیورات اوردیگر ضروری سامان چوں کہ   لڑکے والوں نے بطورِہبہ (تحفہ)  کےدیا تھا تو ایسی صورت میں مذکورہ سامان لڑکی کی ملکیت ہوگیاتھا اور  لڑکے والوں کا اسے واپس لینا شرعًا درست نہیں تھا۔باقی لڑکی والوں نے جوسامان لڑکے کودیا ہے اگر وہ بھی بطورہبہ  کےدیا تھا تو ایسی صورت میں وہ لڑکے کی ملکیت ہےاور لڑکی والے کو شرعاً اس کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے۔

۲۔واضح رہے کہ شرعاً حقِ مہر عورت کی ملکیت ہوتا ہے، لہذا صورت ِ مسئولہ میں حقِ مہر کی رقم چوں کہ پچیس ہزار روپےبصورتِ زیور مقررہوئی تھی اور اسی کے مطابق دے بھی دیا تھا تو وہ زیور لڑکی کی ملکیت ہے،لہذا لڑکے والوں کا یہ کہنا کہ" ہم زیور نہیں دیں گے، کیوں کہ زیور کی رقم مہر کی رقم سے زائد ہے ،ہم صرف مہر کی رقم دیں گے"،شرعاً درست نہیں ہے۔

۳ ۔  واضخ رہے کوئی چیز بطورِ  ہبہ(تحفہ)دےکر واپس لیناشرعاً درست نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں منگنی اورشادی کے موقع پر جوکچھ بطورِ ہبہ؛(تحفہ) دیا تھا، تفریق کی صورت میں اسے واپس لینا شرعاً درست نہیں ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(‌وتتمّ) ‌الهبة (بالقبض) الكامل" .

(الد ر المختار ،کتاب الہبۃ،ج:۵،ص:۶۹۰،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وأما‌‌ ما يتعلق بالمهر حالة البقاء: فهو حق المرأة، فيكون ملكاً خالصاً لها لايشاركها فيه أحد، فلها أن تتصرف فيه، كما تتصرف في سائر أموالها متى كانت أهلاً للتصرف، فلها حق إبراء الزوج منه أو هبته له".

(القسم السادس،الباب الاول،الفصل السادس،ج:۹،ص:۶۷۸۵۔۶۷۸۶،ط:دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"(وإن وهب هبةً لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها) لقوله - عليه الصّلاة والسّلام - :إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها، ولأنّ المقصود فيها صلة الرحم وقد حصل (وكذلك ما وهب ‌أحد ‌الزوجين للآخر) ؛ لأنّ المقصود فيها الصلة كما في القرابة، وإنما يُنظر إلى هذا المقصود وقت العقد حتّى لو تزوّجها بعدما وهب لها فله الرجوع، ولو أبانها بعدما وهب فلا رجوع" .

(فتح القدیر،کتاب الہبۃ،باب الرجوع فی الہبۃ، ج:۹،ص:۴۴،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں