بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آر او فلٹر پلانٹ میں شرکت کی ایک صورت


سوال

آراو فلٹر پلانٹ میں شرکت داری کی ترتیب کیسی ہوگی ؟ہم تین دوستوں نے مل کر فلٹر کا کام شروع کرنا ہے، اس میں ایک دوست پچاس فی صد اور باقی دونوں مل کر پچاس فی صد سرمایہ کاری (انویسٹ) کرنا چاہ رہے ہیں اور پلانٹ چلانا بھی انہی دو کے ذمہ ہوگا اور منافع برابر  یعنی تینتیس فی صد اور نقصان جو پچاس فی صد انویسٹ کر رہا ہے اس کا پچاس فی صد اور باقی دونوں کا پچیس فی صد ہوگااس شرکت میں شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائے۔

جواب

  واضح رہے کہ جب دو یا دو سے زیادہ افراد مشترکہ سرمایہ سے اس طور پرکاروبار شروع کریں کہ منافع ان کے درمیان  مشترک ہوں گےتو یہ شرکت کہلاتی ہےخواہ تمام شرکا کام کرتے ہوں یا ایک شریک کام کرتا ہواور باقی شرکا کا صرف سرمایہ ہو ، جہاں تک  منافع تقسیم کرنے کا طریقہ ہے ،تو معاہدہ کرتے وقت شرکاء باہمی رضامندی سے  جو شرح  طے کرنا  چاہیں کرسکتے ہیں ،البتہ تمام منافع شرکا کے درمیان فی صد کے لحاظ سے تقسیم کیے جائیں ،کسی شریک کے لیے متعین رقم بطور ِ نفع  طے نہ کی جائے ،نیز اگر کسی شریک  کے لیے کام نہ کرنے کی شرط  لگائی جائے تو اس کے لیے سرمایہ کاری کے تناسب سے زیادہ منافع مقرر کرنا  جائز نہیں،ہاں اگر  کسی شریک پر عمل کی شرط  لگائی گئی ہوتو اس کے لیے سرمایہ کے تناسب سے  زیادہ منافع کی شرط لگانا جائز ہے ، البتہ نقصان کی صورت میں تقصان ہر ایک کے سرمائے  کے  بقدر ہوگا۔ لہذا مذکورہ تفصیل کی رو سے آر او پلانٹ میں تینوں شرکاء کا شرکت کرنا درست ہے۔

"مصنف عبد الرزاق" میں ہے:

"أخبرنا عبد الرزاق، قال: قال القيس بن الربيع، عن أبي الحصين، عن الشعبي، عن علي في المضاربة: ‌الوضيعة ‌على ‌المال، ‌والربح ‌على ‌ما ‌اصطلحوا ‌عليه."

(كتاب البيوع، باب نفقة المضارب ووضيعته، رقم الحدیث:16029، ج:8، ص:68، ط:دار التأصيل)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"وإن ‌شرطا ‌العمل ‌على ‌أحدهما، ‌فإن ‌شرطاه ‌على ‌الذي ‌شرطا ‌له ‌فضل ‌الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال. ولا عمل ولا ضمان؛ وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:63، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قلت: ‌وحاصل ‌ذلك ‌كله ‌أنه ‌إذا ‌تفاضلا ‌في ‌الربح، ‌فإن ‌شرطا ‌العمل ‌عليهما ‌سوية ‌جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط."

(‌‌كتاب الشركة، مطلب في توقيت الشركة روايتان، ج:4، ص:312، ط:سعید)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:62، ط:دار الکتب العلمیة)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"وإن ‌قل ‌رأس ‌مال ‌أحدهما ‌وكثر ‌رأس ‌مال ‌الآخر ‌واشترطا ‌الربح ‌بينهما ‌على ‌السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الشركة، الباب الثالث، الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال، ج:2، ص:320، ط:رشيدية)

"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" میں ہے:

"(شركة العقد عبارة عن عقد شركة بين اثنين أو أكثر على كون رأس المال والربح مشتركا بينهم)."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب السادس في بيان شركة العقد، الفصل الأول، المادة:1329، ج:3، ص:340، ط:دار الجيل)

وفيه أيضا:

"فإذا ‌وضع ‌كل ‌واحد ‌من ‌الشركاء مقدارا من المال ليكون رأس مال للشركة وعقدوا الشركة على أن يبيعوا ويشتروا معا أو كل واحد على حدة أو مطلقا وعلى أن يقسم ما يحصل من الربح بينهم تكون الشركة شركة أموال."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب السادس في بيان شركة العقد، الفصل الأول، المادة:1332، ج:3، ص:345، ط:دار الجيل)

وفيه أيضا:

"(‌يشترط ‌أن ‌تكون ‌حصة ‌الربح الذي بين الشركاء جزءا شائعا كالنصف والثلث والربع فإذا اتفق على أن يكون لأحد الشركاء كذا درهما مقطوعا من الربح تكون الشركة باطلة)."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب السادس في بيان شركة العقد، الفصل الثالث في بيان الشروط الخاصة بشركة الأموال، المادة:1337، ج:3، ص:352، ط:دار الجيل)

وفيه أيضا:

"(الاستحقاق للربح إنما يكون بالنظر إلى الشرط الذي أورد في عقد الشركة، وليس بالنظر إلى العمل الذي عمل، فعليه لو لم يعمل الشريك المشروط عمله فيعد كأنه عمل، مثلا إذا شرط عمل الشريكين المشتركين في شركة صحيحة وعمل أحدهما فقط ولم يعمل الآخر لعذر أو لغير عذر فبما أنهما وكيلان لبعض فبعمل شريكه يعد كأنه عمل أيضا ويقسم الربح بينهما على الوجه الذي شرطاه)."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب السادس في بيان شركة العقد، الفصل الرابع، المادة:1349، ج:3، ص:363، ط:دار الجيل)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں