کوئی شخص فوت ہو جائے، اس کی کچھ نمازیں ادا ہونے سے رہ گئی ہوں، اس کا فدیہ کیا ہے؟ جب کہ وہ باقی نمازیں مرتے دم تک باجماعت ادا کرتے تھے، اور اگر مرنے والے کے ذمے روزے ہوں، تو ان کا فدیہ کیا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر فوت شدہ شخص نے اپنی قضاء نمازوں اور روزوں کے فدیہ دینے کی وصیت کی ہو،تو مرحوم کے ورثاء پر اس کے ترکہ کے ایک تہائی میں سے یہ وصیت پوری کرنا لازم ہے، اور اگر انہوں نے وصیت نہیں کی ہو،اور ورثاء اپنی طرف سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، میت پر احسان ہو گا۔
واضح رہے کہ ہر فرض روزہ اور نماز اور وترکے بدلہ ایک ایک فدیہ ہے،اورایک فدیہ کی مقدار تقریباً دوکلو گندم یا اس کی قیمت فقراء کو مالک بنا کر دے دیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - مفسرا أنه قال: «من مات وعليه قضاء رمضان أطعم عنه وليه» وهو محمول على ما إذا أوصى أو على الندب إلى غير ذلك وإذا أوصى بذلك يعتبر من الثلث وإن لم يوص فتبرع به الورثة جاز وإن لم يتبرعوا لم يلزمهم، وتسقط في حق أحكام الدنيا عندنا. وعند الشافعي يلزمهم من جميع المال سواء أوصى به أو لم يوص."
(كتاب الصوم، ١٠٣/٢، ط:مطبعة شركة المطبوعات العلمية بمصر)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله وإن لم يترك مالا يستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى مسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا، كذا في الخلاصة.
وفي فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة نصف صاع حنطة منوين، ولو دفع جملة إلى فقير واحد، جاز."
(كتاب الصلوة،الباب الثاني عشرفي سجود السهو،ج:١ ،ص:١٢٥ ط:المطبعة الكبري الأميرية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507100436
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن