بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قے آنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم


سوال

 اگر روزے کے درمیان قے ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کو روزے کی حالت میں قے (اُلٹی) ہو جائے تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔ قے خود بخود ہوئی اور منہ بھر کر نہیں تھی، بلکہ کم تھی تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

2۔ قے خود بخود ہوئی اور منہ بھر کر ہوئی، اس کا حکم بھی یہ ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

3۔ قے خود بخود نہیں ہوئی، بلکہ قصداً قے کی اور منہ بھر کر نہیں کی تو اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

4۔ قے خود بخود نہیں ہوئی، بلکہ قصداً قے کی اور منہ بھر کر کی تو اس صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا۔

5۔ قے منہ بھر کر ہوئی اور ساری قے یا اس میں سے چنے کے برابر مقدار یا اس سے زائد کو روزہ یاد ہوتے ہوئے خود جان بوجھ کر اپنے اختیار سے اندر اتار دیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔

الدّرّ المختار مع ردّ المحتار  میں ہے:

"(وإن ذرعه القيء وخرج) ولم يعد (لا يفطر مطلقا) ملأ أو لا (فإن عاد) بلا صنعه (و) لو (هو ملء الفم مع تذكره للصوم لا يفسد) خلافا للثاني (وإن أعاده) أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي (أفطر إجماعا) ولا كفارة (إن ملأ الفم وإلا لا) هو المختار (وإن استقاء) أي طلب القيء (عامدا) أي متذكرا لصوم (إن كان ملء الفم فسد بالإجماع) مطلقا (وإن أقل لا) عند الثاني وهو الصحيح، لكن ظاهر الرواية كقول محمد إنه يفسد كما في الفتح عن الكافي (فإن عاد بنفسه لم يفطر وإن أعاده ففيه روايتان) أصحهما لا يفسد محيط."

"(قوله: وإن ذرعه القيء) أي غلبه وسبقه قاموس والمسألة تتفرع إلى أربع وعشرين صورة؛ لأنه إما أن يقيء أو يستقئ وفي كل إما أن يملأ الفم أو دونه، وكل من الأربعة إما إن خرج أو عاد أو أعاده وكل إما ذاكر لصومه أو لا ولا فطر في الكل على الأصح إلا في الإعادة والاستقاء بشرط الملء مع التذكر شرح الملتقى."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:2، ص:414- 415 ، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله أو قاء وعاد لم يفطر) لحديث السنن «من ذرعه القيء، وهو صائم فليس عليه القضاء، وإن استقاء فليقض»

فالحاصل أن صور المسائل اثنا عشر؛ لأنه لا يخلو إما أن ذرعه القيء أو استقاء وكل منهما لا يخلو إما أن يملأ الفم أو لا وكل من الأربعة أما إن عاد بنفسه أو أعاده أو خرج، ولم يعده، ولا عاد بنفسه، وأن صومه لا يفسد على الأصح في الجميع إلا في مسألتين في الإعادة بشرط ملء الفم، وفي الاستقاء بشرط ملءالفم."

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:2، ص:295- 296 ، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں