بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قراء حضرات کا قرآن کی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کرنے کی صورت میں تنخواہ حلال ہوگی؟


سوال

اگر قاری صاحب ہفتہ میں ایک دن بچوں کو قرآن  کریم کی تعلیم دینے کے  بجائے ان کی تربیت کے بارے میں کلاس لیں ،تو کیا اس صورت میں ان  کی  تنخواہ میں  کوئی حرج  آۓگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مدارس کی انتظامیہ کی جانب سے   قراء حضرات  مخصوص اور متعین  وقت مدرسے اور طلباء کو  قرآن کی تعلیم دینے کے پابند ہوتے ہیں،البتہ وقتا ًفوقتاً تعلیم قرآن کے ساتھ ساتھ اس قدر مختصرا دینی تربیت کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے، جس سے قرآن کی تعلیم میں  کسی قسم کا کوئی حرج نہ ہو،نیز اگر متعلقہ ادارے کی طرف سے قراء حضرات کو اس بات کی اجازت ہو  کہ ہفتے میں مکمل ایک دن قرآن کریم کی تعلیم دینے کے بجاۓ دینی تربیت کی کلاس لیں تو اس دن کی تنخواہ قراء حضرات کے لیے لینا درست ہوگی ورنہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.

وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ، وذكر المصنف معظمها، ولكن الذي في أكثر الكتبلاقتصار على ما في الهداية، فهذا مجموع ما أفتى به المتأخرون من مشايخنا وهم البلخيون على خلاف في بعضه مخالفين ما ذهب إليه الإمام وصاحباه، وقد اتفقت كلمتهم جميعا في الشروح والفتاوى على التعليل بالضرورة وهي خشية ضياع القرآن كما في الهداية."

(كتاب الإجارة،‌‌باب الإجارة الفاسدة،‌‌باب الإجارة الفاسدة،55،56/6، ط: سعید)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشيه  الشلبي ميں هے:

"الأجير ‌الخاص من استحق الأجر بالوقت دون العمل وذلك كرجل استأجر رجلا ليخدمه شهرا بخمسة دراهم أو كل شهر بخمسة دراهم أو ليقصر معه أو ليخيط معه أو ليعمل عملا من الأعمال سماه كل شهر بكذا كذا أو كل يوم بكذا أو كل سنة بكذا أو كذا فهذا هو الخاص....... وأجير الوحد أن يتقبل العمل من الواحد،و .... في أجير الوحد يقع على تسليم النفس إليه في المدة لا على تسليم العمل. إلى هنا لفظ شرح الطحاوي."

(كتاب الإجارة،باب ضمان الأجير،134/5، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں